قومی دولت کا زیاں!

216

عوام کے مفادات اور قومی دولت کو نقصان پہنچانے کا عمل کرپشن کہلاتا ہے اور جو لوگ اس کے ذمے دار ہوتے ہیں انہیں کرپٹ کہتے ہیں۔ کرپٹ لوگ مالی کرپشن ہی کے نہیں اخلاقی کرپشن کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ انتخابات میں بہت سے نامور اور یقینی طور پر کامیاب ہونے والے سیاست دان کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑتے ہیں اور اپنی ایمان داری کا ڈھول بھی پیٹتے ہیں۔ حالاں کہ وہ دیدہ دانستہ قومی دولت کا زیاں کرتے ہیں یہ لوگ یقینی طور پر اخلاقی اور مالی کرپشن کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قومی دولت کے اس زیاں کو روکا کیوں نہیں جاتا؟۔
عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخاب لڑنے والوں کو قومی خزانے کے زیاں کے بارے میں سوچنا چاہیے کیوں کہ کئی کئی حلقوں سے کامیاب ہونے والوں کو صرف ایک ہی نشست رکھنا ہوتی ہے باقی نشستیں چھوڑنا پڑتی ہیں جن پر ضمنی الیکشن کرانا پڑتا ہے جو قومی خزانے پر ناروا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ چیف صاحب! سیاست دان قومی مفادات اور تحفظات کے بارے میں سوچتے تو آج ہمارے ہاتھ میں کشکول نہ ہوتا۔ سیاست دان ملکی تباہی کی ذمے داری مارشل لا پر ڈالنے پر قطعاً شرم محسوس نہیں کرتے۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں ہماری معاشی حالت بہت اچھی تھی، اتنی بہتر تھی کہ ہم قرض دیا کرتے تھے مگر اب یہ حالت ہے کہ ہمارا کشکول بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری اقتصادی صورت حال جرنیلوں کے دور حکومت ہی میں کیوں بہتر ہوئی ہے۔ چیف صاحب کا یہ فرمان درست ہے کہ سیاست دانوں کو غور کرنا چاہیے کہ کئی کئی حلقہ انتخاب میں حصہ لے کر وہ قومی خزانے کو کیوں نقصان پہنچاتے ہیں۔ ضمنی الیکشن پر خرچ ہونے والی رقم ڈیموں کی تعمیر پر بھی تو خرچ ہوسکتی ہے۔ خدا جانے قوم کا شعور کب اس حد تک بیدار ہوگا کہ وہ کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑنے والوں کو سیاسی طور پر اس حد تک مفلوج کردے گی کہ ایسے سیاست دان الیکشن لڑنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ چیف صاحب کا یہ خیال قابل تحسین ہے کہ ایک نشست رکھ کر باقی نشستوں کو چھوڑنے کی صورت میں ضمنی الیکشن پر جو رقم خرچ ہوتی ہے اسے ڈیموں کی تعمیر پر خرچ کیا جائے تو پانی کی قلت کے خوف سے نجات مل سکتی ہے اور ہم اپنی نسلوں کو ایک زرخیز اور خوشحال پاکستان دے سکتے ہیں۔ چیف صاحب! مشورہ تو وکیل دیتا ہے آپ چیف جسٹس پاکستان ہیں، آپ ازخود نوٹس لے کر ایسے سیاست دانوں سے ضمنی الیکشن میں خرچ ہونے والی رقم کی وصولی کو قانونی شکل دیں تو یہ قوم پر احسان ہوگا کہ آپ کی ذمے داری مشورہ دینا نہیں، فیصلہ کرنا ہے۔
اگر ہم سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور عمران خان کے انداز حکمرانی اور ذہنی مطابقت پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف نے سود کے خلاف شریعت کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور اب عمران خان نے سعد رفیق کے حق میں دیے گئے فیصلے کو بھی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا تھا، حالاں کہ انہوں نے اپنی فتح یابی کے بعد کہا تھا کہ اگر کسی کو دھاندلی کا شبہ ہوا تو ہم حلقہ کو دوبارہ کھلوانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ ہم نے 24 جولائی کے کالم میں کہا تھا کہ الیکشن کے بعد نئی حکومت آجائے گی مگر یہ حکومت بھی پیش رو حکومت کا تسلسل ہی ہوگی صرف چہرے بدلے جائیں گے سو، چہرے بدل چکے ہیں مگر عوام کی قسمت نہیں بدلے گی۔