معروضی صداقت‘ موضوعی صداقت اور سہیل وڑائچ

713

سہیل وڑائچ کا نام معروضی یا موضوعی صداقت کے ساتھ لکھنا معروضی اور موضوعی صداقت دونوں کی توہین ہے۔ مگر اس غلطی کی پشت پر ایک مجبوری ہے۔ کیا؟ ملاحظہ فرمائیں۔
پچیس تیس سال پہلے ہم نے سگمنڈ فرائیڈ کی ایک کیس ہسٹری کا ذکر کہیں پڑھا تھا۔ کیس ہسٹری کے مطابق ایک نفسیاتی مریض فرائیڈ کے پاس آیا۔ اس نے فرائیڈ کو بتایا کہ مجھے پوری کائنات میں بدنظمی دکھائی دیتی ہے۔ فرائیڈ نے اس کا علاج کیا تو نفسیاتی مریض کو کائنات میں ہم آہنگی نظر آنے لگی۔ مگر پھر وہ کہنے لگا کہ بہرحال زمین کے معاملات کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کا مزید علاج ہوا تو اسے زمین بھی ایک ہم کُل آہنگ دکھائی دینے لگی۔ مگر پھر مریض کو اپنے براعظم میں گڑبڑ دکھائی دینے لگی۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مریض کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس کی خانگی زندگی برباد تھی۔ اس خرابی کو اس نے عمومی بنا کر یا generalize کرکے پوری کائنات پر پھیلا دیا تھا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے محبوب رہنما میاں نواز شریف اقتدار سے محروم ہوگئے ہیں۔ مگر اس حوالے سے انہیں کبھی اورنگ زیب اور دارا شکوہ کی مثال یاد آتی ہے۔ کبھی انہیں سقراط اور گیلیلیو کا خیال آتا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں معروضی اور مطلق صداقت یا Absolute truth کی پوری روایت کو روند ڈالا ہے۔
انہوں نے 3 اگست 2018ء کے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا۔
’’میرا دعویٰ ہے کہ میں سچا ہوں جب کہ مجھ سے اختلاف کرنے والے کا خیال ہے کہ وہ سچا ہے۔ کیسے جانیں کہ سچا کون ہے‘‘۔
یہ فقرہ اپنی جگہ مکمل ہے اور اس فقرے کے ذریعے سہیل وڑائچ نے صداقت کی پوری تاریخ پر تھوک دیا ہے۔ سہیل وڑائچ کے فقرے کا اطلاق پوری تاریخ پر کرلیں تو سہیل وڑائچ صاحب فرما رہے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ خدا ہے، دوسرا کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے، ایک شخص کہتا ہے خدا ایک ہے، دوسرا کہتا ہے تین ہیں۔ پیغمبروں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس وحی آتی ہے ان کے حریف کہتے رہے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب سہیل وڑائچ پوچھ رہے ہیں کہ ہم یہ کیسے جانیں کہ سچا کون ہے؟ سوالات کے اس سلسلے کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں۔ مسلمان کہتے ہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے، عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام جھوٹا مذہب ہے اب ہم کیسے جانیں کہ سچا کون ہے؟ اہل مذہب کہتے ہیں کہ حقیقی علم اُن کے پاس ہے، اہلِ فلسفہ اور اہل سائنس کہتے ہیں کہ معروضی علم صرف ان کے پاس ہے، اہل مذہب تو خیالی پلاؤ پکاتے ہیں، ان کی باتیں تو افسانہ و افسوس ہیں۔ اب ہم کیسے جانیں کے سچا کون ہے؟ پاکستان میں ایک طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، ایک طبقہ کہتا ہے کہ پاکستان معاشی ضروریات کے تناظر میں قائم کیا گیا، ایک طبقہ کہتا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے، ایک طبقہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ اب ہم کیسے جانیں کہ سچا کون ہے؟ اس تناظر میں سہیل وڑائچ کہہ رہے ہیں کہ بیانیہ تو سبھی کے پاس ہے اب ہم یہ فیصلہ کیسے کریں کہ سچائی کس کے پاس ہے؟ اس بیان سے یہ معنی ازخود برآمد ہوجاتے ہیں کہ معروضی صداقت یا Objective Truth نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ ہر طرف موضوعیت یا Subjectivty کی حکمرانی ہے۔ اب اگر ہر شخص کے پاس موضوعی سچائی یا Subjective Truth ہے تو کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں، نہ بیانیے کو، نہ افراد کو، نہ گروہوں کو۔ لیجیے سہیل وڑائچ نے ایک نواز شریف کے لیے پوری انسانی تاریخ کو بے چہرہ کردیا ہے۔
اب بیانیے کا مسئلہ یہ ہے کہ بیانیہ تو سب ہی کے پاس ہوتا ہے۔ خدا کا بیانیہ یہ ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ۔ سب جھک گئے مگر ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے، چوں کہ آگ مٹی سے بہتر ہے اس لیے میں آگ کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک بیانیہ رحمن کا ہے، ایک بیانیہ شیطان کا ہے، ایک بیانیہ ابراہیمؑ کا تھا، ایک بیانیہ نمرود کا تھا، ایک بیانیہ موسیٰؑ کا تھا، ایک بیانیہ فرعون کا تھا، ایک بیانیہ محمدؐ کا تھا، ایک بیانیہ ابوجہل کا تھا۔ بہت نیچے بہت ہی نیچے آجائیں۔ فلسطین کے بارے میں ایک بیانیہ فلسطینیوں کا ہے، ایک بیانیہ اسرائیل کا ہے، کشمیر کے سلسلے میں ایک بیانیہ پاکستان کا ہے، ایک بیانیہ بھارت کا ہے۔ ارے بھائی بیانیہ تو پاگلوں، قاتلوں، چوروں، ڈاکوؤں کا بھی ہوتا ہے تو کیا سارے بیانیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مساوی الحیثیت ہوتے ہیں؟ ان میں سے کسی کی معروضیت یعنی Objectivity واضح نہیں ہوتی اور کسی بیانیے کی موضوعیت یا Subjectivity بالکل عیاں نہیں ہوتی؟
انگریزی کا ایک فقرہ ہے۔ Satan is the ape of god۔ یعنی شیطان خدا کا بندر ہے۔ مطلب یہ کہ شیطان خدا کی نقل کرتا ہے۔ اس بات کا مطلب کیا ہے؟ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ باطل خدا کو قابل قبول بنانے کے لیے اپنے آپ کو حق کے مماثل بناتا ہے۔ وہ ایسا نہ کرے تو صاف پہچان لیا جائے گا اور کوئی بھی اسے حق سمجھ کر قبول نہیں کرے گا۔ اس بات کو ایک عام مثال سے سمجھتے ہیں۔ جو لوگ جعلی نوٹ بناتے ہیں وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ جعلی نوٹ اصل نوٹ کی طرح محسوس ہوں۔ ان کے ڈیزائن، حجم اور رنگ میں بہت کم فرق ہو۔ اگر جعل ساز یہ نہ کریں تو ان کے بنائے ہوئے جعلی نوٹوں کو لوگ دیکھتے ہی پہچان لیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ کو الفاروق کا خطاب اس لیے دیا گیا کہ باطل خواہ کسی شکل اور کسی لباس میں ان کے سامنے آتا تھا وہ اسے پہچان جاتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ معروضیت اور موضویت میں دائمی طور پر فرق ہے۔ حق و باطل دائمی طور پر مختلف ہیں۔ سچ اور جھوٹ کبھی مساوی الحیثیت نہیں ہوتے۔ بس انہیں پہچاننے والی آنکھ درکار ہوتی ہے۔ اتفاق یا کسی بدبختی یا کسی بد باطنی کی وجہ سے اگر یہ صلاحیت کسی شخص، گروہ یا قوم کے پاس نہ ہو تو اسے ہر گز بھی منہ پھاڑ کر سہیل وڑائچ کی طرح یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میرا دعویٰ بھی یہ ہے کہ میں سچا ہوں اور میرا حریف بھی یہی کہتا ہے کہ وہ سچا ہے، اب ہم یہ کیسے جانیں کہ سچا کون ہے؟۔
رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں کی پانچ اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو رسول اکرمؐ کو براہِ راست جانتے تھے، جسے سیدنا ابوبکرؓ، خدیجہ الکبریٰؓ، سیدنا علیؓ۔ ان لوگوں کو رسول اکرمؐ نے بتایا کہ میں نبی ہوں اور انہوں نے کسی سوال کے بغیر آپؐ کے کہے کو تسلیم کرلیا۔ سیدنا عمرؓ کے لیے قرآن مجید کی چند آیات کافی ہوگئیں۔ ان آیات سے سیدنا عمرؓ نے جان لیا کہ قرآن انسانی کلام نہیں۔ انسانوں کی ایک قسم وہ تھی جس نے کہا کہ آپؐ معجزہ دکھائیں گے تو ہم ایمان لائیں گے۔ ان لوگوں کی دو اقسام تھیں۔ ایک قسم وہ تھی جس نے معجزے کا مطالبہ کیا۔ معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئی۔ دوسری قسم وہ تھی جس نے معجزے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے اور یہ لوگ ایمان نہیں لائے۔ انسانوں کی ایک قسم وہ تھی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائی۔ ان لوگوں کے لیے سیاسی طاقت اصل چیز تھی۔ سہیل وڑائچ اگر رسول اکرمؐ کے زمانے میں ہوتے تو وہ ان لوگوں میں شامل ہوتے جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا۔ معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے۔ سہیل وڑائچ اس وقت ہوتے تو کہتے معجزہ جادو کی طرح ہے اور جادو معجزے کی طرح۔ ہمیں کیا پتا سچا کون ہے، معجزے والا؟ یا جادو والا؟ سہیل وڑائچ کی جو نفسیات ان کے کالموں میں ظاہر ہوتی ہے اسے دیکھ کر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں بھی شامل ہوسکتے تھے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سیاسی طاقت کو پوجتے تھے۔
زیر بحث موضوع کے حوالے سے اقبال کے دو شعر بہت اہم ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
ملا اور مجاہد میں اذان کے ظاہر اور باطن کے حوالے سے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مگر اقبال کے پاس نظر تھی چناں چہ انہوں نے یہ نہیں کہا ہمیں کیا معلوم ملا بہتر ہے یا مجاہد؟۔ اقبال جانتے تھے ملا کے لیے اذان دینے کا عمل محض ایک کام محض ایک Job ہے۔ چناں چہ اس کے لیے اذان صرف ’’قال‘‘ ہے۔ اس کے برعکس مجاہد اللہ کی بڑائی اس کی کبریائی ثابت کرنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے اس لیے اذان مجاہد کا قال نہیں اس کا ’’حال‘‘ ہے۔ اقبال کا دوسرا شعر یہ ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
دیکھا جائے تو شاہین اور گدھ کا ’’بیانیہ‘‘ ایک ہی ہے۔ اس لیے کہ دونوں کا جہان ایک ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بلند پروازی شاہین کی فطرت ہے اور گدھ اس لیے بلند پرواز کی طرف جاتا ہے تاکہ وہ ’’مردار‘‘ کو تلاش کرکے اسے اپنی غذا بنا سکے۔
سہیل وڑائچ نے اپنے ایک کالم میں میاں نواز شریف کو عہد حاضر کا داراشکوہ قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ داراشکوہ ہمیشہ اورنگ زیب سے کیوں ہار جاتا ہے؟۔ اس کالم کے جواب میں ہم نے ایک کالم تحریر کیا تھا۔ اس کالم میں مستند تاریخی حوالوں سے ثابت کیا گیا تھا کہ داراشکوہ مسلمان نہیں رہا تھا۔ وہ ہندوؤں کی مقدس کتب کو قرآن سے برتر سمجھتا تھا۔ اس کے دور میں مساجد شہید کی جاتی تھیں اور وہ اس عمل کو بُرا خیال نہیں کرتا تھا۔ مرنے سے قبل اس نے کہا کہ معاذ اللہ محمدؐ میری جان لے رہے ہیں اور شاید عیسیٰؑ میری نجات کے لیے کچھ کریں۔ لیکن سہیل وڑائچ پر اس کالم کے اہم نکات کا کوئی مفہوم ہی نہیں تھا چناں چہ انہوں نے اپنے حالیہ کالم میں فرمایا۔
’’داراشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کے آج بھی اپنے اپنے حامی ہیں۔ عوام کی اکثریت تب بھی داراشکوہ کی حمایت میں اتر آئی تھی۔ اورنگ زیب پر اتنے حملے ہوئے جتنے حملے کسی مغل بادشاہ پر نہیں ہوئے‘‘۔
اس اقتباس میں سہیل وڑائچ فرما رہے ہیں کہ سچا کون ہے اور کس کا بیانیہ درست ہے۔ اس کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ کس کے پاس زیادہ لوگوں کی حمایت ہے۔ اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود طوفان نوح کے وقت سیدنا نوح کے ساتھ 40 لوگ تھے۔ پس سہیل وڑائچ کے اصول کی رو سے ثابت ہوا کہ سیدنا نوح (معاذ اللہ) سچے نہیں تھے بلکہ کافر سچے تھے۔ اس لیے کہ زیادہ لوگ کافروں کے ہمنوا تھے۔ سہیل وڑائچ مکے کی 13 سالہ زندگی میں رسول اکرمؐ کے ساتھ ہوتے تو اول تو وہ ایمان ہی نہ لاتے اور لاتے تو 13 ویں سال تک آتے آتے پھر کفر کی طرف لوٹ جاتے۔ اس لیے کہ رسول اکرمؐ 13 برسوں میں چار سو پانچ سے زیادہ لوگوں کو مشرف بہ اسلام نہیں کرسکے تھے۔
خدانخواستہ اگر آج ساڑھے سات ارب انسانوں میں سات، سوا سات ارب انسان کفر یا شرک اختیار کرلیں تو سہیل وڑائچ ایک لمحے میں اسلام کو الوداع کہہ دیں گے۔
سہیل وڑائچ کو بلھے شاہ کے حوالے سے یاد آیا کہ سچا تو وہ ہے جس کے سچ سے آگ لگ جائے یا جو طاقت ور کو للکارے۔ اسلام کی رو سے یہ بھی کوئی اصول نہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص میدان جنگ میں اپنی یا اپنے قبیلے کی شہرت کے لیے جان دے تو شہید نہیں کہلائے گا بلکہ شہید وہی ہوگا جو اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اسلام کی سربلندی کے لیے جان دے۔ یہاں بہادری دونوں طرف ہے مگر بہادری کے محرکات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص جابر حکمران کے سامنے محض اس لیے سچ بولتا ہے کہ اس کی انا کی تسکین ہو یا اس کی جماعت یا قبیلے کا فائدہ ہو تو اس صداقت کا اسلام کے حوالے سے کوئی مقام نہیں۔ سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ سچے اور جھوٹے کا فیصلہ تاریخ بھی کرتی ہے۔ مگر سہیل وڑائچ تاریخ کو بھی کہاں مانتے ہیں۔ مثلاً تاریخ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ اورنگ زیب حق پر تھا، وہی ہماری تاریخ کا ہیرو ہے، مگر سہیل وڑائچ ابھی تک داراشکوہ کو سچا اور برصغیر کے مسلمانوں کا ہیرو ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سہیل وڑائچ کا مسئلہ تاریخ بھی نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ غلط سلط پڑھا اور سوچا ہوا ہے اسے وہ Un-learn کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے محبوب رہنما میاں نواز شریف اقتدار سے محروم ہوگئے ہیں اور انہیں فرائیڈ کے پاس آنے والے مریض کی طرح زمین سے آسمان تک ہر چیز میں گڑبڑ نظر آرہی ہے۔