تاریکی کا راج

222

گزشتہ جمعہ کی شب نہ صرف پورا شہر کراچی تاریکی میں ڈوب گیا بلکہ اندھیروں نے سندھ اور بلوچستان کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کراچی اور حیدرآباد کے شہریوں نے رات جاگ کر کاٹی۔ اس کے علاوہ اخبارات کا کام شدید متاثر ہوا۔ ہوائی اڈے پر مسافر پریشان رہے اور اسپتالوں میں مریض تڑپتے رہے۔ یہ ہفتے میں دوسری بار ہوا ہے کہ بن قاسم پاور پلانٹ جواب دے گیا۔ اس کے ساتھ ہی گدو سے سندھ اور بلوچستان کو بجلی فراہم کرنے والی 500 کلو واٹ کی ایکسٹرا ہائی ٹینشن لائن ٹرپ ہوگئی۔ ایسی خرابیاں کسی بھی وقت ہوسکتی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں لیکن ایسے میں نہ تو کوئی متبادل نظام ہے اور نہ ہی جلد از جلد خرابی دور کرنے کا انتظام۔ شہری بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے بس انتظار کرتے رہتے ہیں کہ شاید اب بجلی آجائے۔ بارشوں کا موسم شروع ہورہا ہے اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے بجلی کی فراہمی معطل کرنے کا یہ بڑا اچھا جواز ہے کہ تار گیلے ہوگئے یا خرابی کی ذمہ دار بارش ہے۔ تار تو شبنم پڑنے سے بھی ناکارہ ہوتے رہے ہیں۔ بجلی کی فراہمی بند ہونے سے پانی کا مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے چنانچہ شہری بیک وقت پانی اور بجلی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کے الیکٹرک کا یہ کمال ہے کہ بلوں میں تو روز افزوں اضافہ ہے لیکن اربوں روپے کے منافع میں سے کچھ بھی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ کے الیکٹر کو یہ نظام سونپتے ہوئے جو معاہدہ کیا گیا تھا اس میں یہ شامل تھا کہ نظام کو بہتر بنا کر صارفین کو سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ حکومت نے تو یہ معاہدہ بھی چھپا کر رکھا ہوا ہے جسے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن سے تجارتی اور معاشی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوتی ہیں اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ بجلی کی آنکھ مچولی کے علاوہ کراچی میں ایک تماشا اور ہوتا ہے اور وہ ہے آئے دن شہر کو پانی فراہم کرنے والی بڑی لائنوں کا پھٹ جانا۔ یہ اس شہر میں ہورہا ہے جہاں پہلے ہی پانی کی قلت ہے۔ لائنیں پھٹنے سے کروڑوں گیلن پانی ضائع ہوجاتا ہے اور سڑکیں جھیل بن جاتی ہیں۔ اس خرابی کو تیزی سے درست بھی نہیں کیا جاتا۔ لائنیں پھٹ جانے کی ذمہ داری بھی بجلی کے تعطل پر ڈال دی جاتی ہے لیکن ایک وجہ ان لائنوں کی بوسیدگی ہے۔ عوام صبر و شکر سے زندگی گزار رہے ہیں۔