عمران خان کا امتحان شروع ہوگیا

274

مرکز سمیت چاروں صوبوں میں حکومتیں بن گئی ہیں یا ان کا تعین ہوگیا ہے۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان حلف اٹھا لیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے لیے عمران خان نے بطور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا انتخاب کیا ہے جن کے بارے میں حتمی فیصلہ آج اتوار کو ہوجائے گا اور چونکہ پاکستان تحریک انصاف اسپیکر کے انتخابات میں اپنی اکثریت ثابت کرچکی ہے اس لیے قوی امکان ہے کہ عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بن جائیں گے۔ یہ عمران خان کا انتخاب ہے جو انہوں نے یقیناً بڑی چھان پھٹک کے بعد کیا ہوگا۔ عمران خان اپنے ساتھیوں سے مشورے کے باوجود آخری فیصلہ خود کرتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی وزارت علیا کے لیے محمود خان بھی ان کا اپنا انتخاب ہیں جنہوں نے گزشتہ جمعہ کو حلف اٹھا لیا۔ محمود خان کا تعلق سوات کے علاقے مٹہ سے ہے اور وہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی کابینہ میں فعال رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی وزارت علیا کا فیصلہ کرنا ایک دشوار مرحلہ تھا کیونکہ وہاں گروپ بندیاں زیادہ ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی اس منصب کے امیدوار تھے اور ان سے یہ بیان منسوب کیا گیا تھا کہ وزارت علیا نہ ملی تو وہ پارٹی چھوڑدیں گے۔ لیکن چونکہ وہ قومی اسمبلی کے لیے بھی منتخب ہوئے تھے اور عمران خان کو اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست کی ضرورت تھی اس لیے پرویز خٹک کو صوبے تک محدود رہنے کے لیے راضی کرلیا گیا۔ ایک مضبوط امیدوار عاطف خان تھے جو عمران خان کے بھی پسندیدہ تھے۔ لیکن پرویز خٹک نے ان کی مخالفت کی تو محمود خان کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ محمود خان کو پرویز خٹک اور عاطف خان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا تاہم ان کے سر پر عمران خان کا ہاتھ ہے۔ خیبر پختونخوا میں پہلی بار کسی کو دو تہائی اکثریت ملی ہے جس کے تقاضے بہت ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں جام کمال نئے قائد ایوان منتخب ہوگئے ہیں۔ ان کا تعلق بھی ریاست لسبیلہ کے نواب خاندان سے ہے اور سیاسی طور پر وہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے متعلق ہیں۔ باپ کا وجود نیا ہے اور اسے بڑی جلدی میں سامنے لایا گیا ہے۔ پختونخوا اور بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے جام کمال کو فوج کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا۔ اہم صوبے سندھ میں اقتدار کی غلام گردشوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی اسپیکر اور وہی وزیراعلیٰ چنانچہ صورتحال بھی وہی رہے گی جو گزشتہ 10 سال سے سامنے ہے۔ اس صوبے پر پاکستان پیپلزپارٹی کی گرفت مضبوط ہے اور اب تو ایم کیو ایم کا زور ٹوٹنے سے گرفت مزید مضبوط ہوگئی ہے، اتنی کہ بلا روک ٹوٹ جو چاہے کرے۔ گزشتہ 10 برس میں سندھ کا جو حال ہوا ہے وہ محتاج بیان نہیں، شہر ہوں یا دیہات وہاں صرف وعدوں اور دعووں کی فصلیں کاشت ہوئی ہیں اور اس پر فخر کا اظہار ایک اور المیہ ہے۔ گزشتہ 10 برس میں تھرپارکر میں غذائی قلت اور سیکڑوں بچوں کی ہلاکت کے سلسلے پر قابو نہیں پایا جاسکا، شاید مرنے والے بچوں کے والدین پیپلزپارٹی کے ووٹر نہیں تھے۔ ایک سابق وزیراعلیٰ تو اس صورتحال کو معمول قرار دے چکے ہیں لیکن یہ معمول حکمران خاندان میں تو نظر نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اب تک کی عمر کا بڑا حصہ یورپ میں گزارا ہے۔ شاید وہ پیپلزپارٹی کے مخصوص کلچر سے کچھ ہٹ کر ہوں اور غریبوں سے ہمدردی کے دعووں پر عمل بھی کر دکھائیں۔ اب اہم مرحلہ پنجاب کا درپیش ہے جہاں عثمان بزدار نامزد ہوتے ہی متنازع ہوگئے۔ وہ قتل کے مجرم ہیں جس کے عوض ویت ادا کرکے بچ نکلے تھے۔ ویت کی ادائیگی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عثمان بزدار نے قتل کا ارتکاب کیا۔ ان پر اور بھی کئی الزامات ہیں، ان کو بطور وزیراعلیٰ نامزد کرنے سے پہلے عمران خان نے یقیناً ان کے ماضی کے بارے میں خوب تحقیق کرلی ہوگی تو کیا ان کے علم میں نہیں کہ وہ قتل کے مجرم ہیں یا عمران خان کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف پر تو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کے قتل کا الزام ہی ہے جس میں وہ براہ راست ملوث نہیں تھے۔ عمران خان نے اگر عثمان بزدار کے نام پر نظر ثانی نہیں کی تو یہ ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گی اور حزب اختلاف کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ عثمان بزدار کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے اور ان کا انتخاب جنوبی پنجاب کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی کامیابی میں جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ ہے۔ وسطی پنجاب سے تحریک کو نمایاں کامیابی نہیں ملی۔ عثمان بزدار کے انتخاب کی بنیادی وجہ عمران خان نے یہ بتائی ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے واحد رکن ہیں جن کے گھر میں بجلی تک نہیں ہے۔ اب اگر انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس میں قیام کرنے کا موقع مل گیا تو نہ صرف چراغاں بلکہ مفت کی بجلی ملے گی۔ عمران خان کے مطابق ان کے انتخاب کی وجوہات یہ بھی ہیں کہ سردار عثمان کا تعلق ایسے علاقے سے ہے جہاں پانی ہے نہ بجلی اور نہ اسپتال۔ ان کے حلقے کے عوام پتھر کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہ وجوہات یقیناً اہم ہیں لیکن اس علاقے میں جرائم کی شرح بھی بلند ہے اور قتل کر ڈالنا عام بات ہے۔ عثمان بزدار کے ساتھ تو ’’سردار‘‘ کا سابقہ بھی لگا ہوا ہے۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ پہلے سب کا کڑا احتساب ہوگا، کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا، ملک لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن کیا قاتلوں کا احتساب بھی ہوگا، سر عام تشدد کرنے والوں کی پارٹی رکنیت ایک ماہ کے لیے معطل کردینا کافی ہوگا؟ کیا عدالت سے نا اہل قرار دیے گئے کسی شخص کو اپنا مشیر خاص بنانا مناسب ہوگا؟ ایسے بہت سے سوالات ضرور اٹھائے جائیں گے۔