وزیراعلیٰ بلوچستان کا تاج تیسری بار جام خاندان کے سر سج گیا 

111

کو ئٹہ( نمائندہ جسارت) بلوچستان عوامی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے نامزد کردہ جام کمال خان عالیانی بلوچستان کے 17ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔وہ جام خاندان کی تیسری نسل ہیں جنہیں وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ان کے والد جام محمد یوسف اور داداجام غلام قادر بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔جام کمال خان عالیانی جنوری 1973ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق ریاست لسبیلہ کے شاہی عالیانی خاندان سے ہے۔ کمال خان عالیانی لسبیلہ کے موجودہ اور 13ویں جام ہیں۔ 1742ء میں جام عالی خان کے دور حکمرانی سے لے کر 1948ء تک ریاست لسبیلہ پر ان کے خاندان کی حکمرانی رہی۔قیام پاکستان کے بعد جام غلام قادر نے ریاست لسبیلہ کا پاکستان سے الحاق کیا۔الحاق کے بعد بھی اقتدار ہمیشہ ان کے خاندان کے پاس رہا۔نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے جام غلام قادر بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے۔وہ 27 اپریل 1973ء سے 31 دسمبر 1974ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جام غلام قادر دوسری مرتبہ 29 مئی 1988ء تک وزیراعلیٰ رہے۔پرویز مشرف کے زیر سایہ 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق )کو کامیابی ملی تو جام کمال کے والد جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بنے اور یکم دسمبر 2002ء سے 19 نومبر 2007ء تک اس عہدے پر رہے۔ اسی دوران ڈیرہ بگٹی میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔نئی آنے والی حکومت میں ان کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں جام یوسف وفاقی وزیر نجکاری رہے۔مسلم لیگی ہونے کے باوجود جام خاندان کی قوم پرستوں کے ساتھ قریبی رشتے داریاں رہی ہیں۔خان آف قلات اور سردار اختر مینگل جام کمال کے قریبی رشتے دار ہیں۔جام کمال خان نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے لسبیلہ سے ہی حاصل کی۔ انہوں نے گرینوج یونیورسٹی ڈیفنس کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تاہم انہوں نے کاغذات نامزدگی میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں اپنی تعلیمی قابلیت انڈر گریجویٹ اور پیشہ سیاست لکھا ہے۔انہوں نے اپنے اثاثوں کی مالیت 15 کروڑ 25لاکھ49 ہزار روپے ظاہر کی جس پر انہوں نے 61 لاکھ 45 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ جام کمال3 بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہیں۔ذاتی زندگی میں مذہبی رجحان رکھنے والے جام کمال دھیمے مزاج کے مالک ہیں۔ کھیلوں کے شوقین ہیں۔ کار اور موٹر بائیک اسپورٹس میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔حب ،چولستان، بولان ، جھل مگسی ، گوادر سمیت مختلف علاقوں میں ہونیوالی جیپ ریلیوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔سیاست اور کھیلوں کے علاوہ ان کی دلچسپی آبائی زرعی زمینوں اور اپنے ذاتی کاروبار میں بھی رہی ہے۔ جام کمال خان نے معدنیات اور تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔جام کمال خان نے اپنے والد کی تربیت میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر سیاسی میدان میں باقاعدہ قدم رکھا اور2 مرتبہ لسبیلہ کے ضلع ناظم رہے۔فروری 2013ء میں والد کی وفات کے بعد جام کمال قومی پارلیمانی سیاست میں آگئے۔ وہ 2013ء کے عام انتخابات میں این اے 270 آواران کم لسبیلہ اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی 50 سے بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم انہوں نے بعد میں قومی اسمبلی کی نشست پاس رکھی اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کیا۔جام کمال 2013ء سے 2018 ء کے دوران وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر مملکت رہے۔ اپریل 2018ء میں مسلم لیگ(ن)سے الگ ہوکر نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ مئی 2018ء میں انہیں اس نئی جماعت کا سربراہ بنایاگیا۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں لسبیلہ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 50 پر کامیاب ہونے کے بعد جام کمال کو بلوچستان عوامی پارٹی نے وزیراعلیٰ کے لیے نامزد کیا۔بی اے پی کی سربراہی میں6 جماعتی اتحاد نے بھی ان کی حمایت کی۔ہفتے کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں جام کمال 39 ووٹ لے کر صوبے کے 17 ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ اس طرح وہ اپنے خاندان کے تیسرے فرد بن گئے جن کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجا۔جام خاندان بلوچستان کا واحد خاندان ہے جو سب سے زیادہ اقتدار میں رہا اور اسی بات کو لے کر ان کے مخالفین نے انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد بھی جام کمال خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔