بارے کچھ آم کا بیاں ہوجائے

236

لیجیے صاحب اب کی دفعہ انتخابات بھی ایسے موسم میں آئے جب آم کا سیزن چل رہا تھا اور ہر طرف آم کی بہار آئی ہوئی تھی لیکن ہم نے نہیں سنا کہ کسی امیدوار نے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں آم پارٹی دی ہو۔ حالاں کہ اس پر کتنا خر چ آجاتا، زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ روپے۔ اب تو انتخابات میں ایک امیدوار کا خرچہ کروڑوں میں ہے، ایک دوست بتا رہے تھے اسلام آباد میں ایک کفایت شعار امیدوار نے اپنی انتخابی مہم پر 13 کروڑ روپے خرچ کیے لیکن پی ٹی آئی کا ریلا انہیں بہا کر لے گیا۔ اب وہ کف افسوس مل رہے ہیں اگر وہ اِن کروڑوں میں سے صرف 5 لاکھ روپے آم پارٹی پر خرچ کردیتے تو وہ پارٹی یادگار بن جاتی، لوگ بے شک انہیں ووٹ نہ دیتے لیکن انہیں یاد ضرور رکھتے اور کیا عجب اس پارٹی کے طفیل ان کی لاٹری نکل آتی۔ یوں تو قدرت نے بے شمار پھل پیدا کیے ہیں اور ہر پھل اپنی لذت میں منفرد ہے اور اپنے موسم میں بہار کا سماں پیدا کردیتا ہے لیکن آم کے کیا کہنے! اسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، یوں تو سیب کے بے شمار فائدے بیان کیے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ روزانہ نہار منہ ایک سیب کا استعمال آدمی کو ڈاکٹر کے پاس جانے سے روکتا ہے، آم کے بارے میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا جاتا لیکن آم کی تعریف میں ہر صاحب ذوق رطب السان نظر آتا ہے۔ آم وہ واحد پھل ہے جسے لوگ اپنے احباب کو تحفے میں بھیجتے ہیں، یہ رسم آج سے نہیں برسوں سے چلی آرہی ہے۔ مرزا غالبؔ کو آم بہت پسند تھے، آم کا موسم آتا تو احباب ان کو آم کا تحفہ بھیجتے اور وہ اس سے شاد کام ہوتے وہ آم کی صرف دو خوبی کے قائل تھے ایک یہ کہ میٹھے ہوں اور دوسری یہ کہ ڈھیر سارے ہوں۔ ان کے ایک دوست آم پر مرزا کی شفتیگی کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے، ایک دن انہوں نے دیکھا کہ مرزا کی ڈیوڑھی کے باہر آم کے چھلکوں اور گٹھلیوں کا ڈھیر لگا ہے اتنے میں ایک گدھا گلی سے گزرا اس نے اس ڈھیر کو سونگھا اور آگے بڑھ گیا، دوست کو دل لگی سوجھی انہوں نے مرزا غالب سے کہا، مرزا دیکھا گدھے بھی آم کھانا پسند نہیں کرتے۔ مرزا نے اپنے دوست پر نظر ڈالی اور بڑے رسان سے جواب دیا ’’ہاں سچ کہتے ہو گدھے آم نہیں کھاتے‘‘ اور وہ صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ خیر وہ زمانہ اور تھا جب گدھے واقعی آم نہیں کھاتے تھے لیکن اب گدھے اور کیا غیر گدھے سبھی آم کے رسیا ہیں اور ایک دوسرے کو تحفے میں بھیجتے ہیں۔
سیاست میں بھی آم کا بڑا دخل ہے۔ سیاستدان اپنے رابطے برقرار رکھنے اور خاص طور پر صحافیوں کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھنے کے لیے انہیں آم کی پیٹیاں ارسال کرتے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ہم جب تک ایک قومی اخبار سے وابستہ رہے ہمیں بھی اسلام آباد میں مقیم ایک دو سیاستدانوں کی طرف سے آم کی پیٹیاں موصول ہوتی تھیں، صرف ہمیں ہی کیوں پورا ادارتی عملہ فیض اُٹھاتا تھا۔ مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے۔ سب دوست اس تحفے کو دل و جان سے قبول کرتے تھے۔ جب تک برادرم نواز رضا راولپنڈی پریس کلب کے صدر رہے آم پارٹی بڑی شان و شوکت سے ہوتی تھی، وہ کسی نہ کسی موٹی آسامی کو گھیر لیتے اور پریس کلب کے سبزہ زار میں پڑے ہوئے ٹبوں میں آموں کے ڈھیر لگ جاتے تھے اور یار لوگ پورے سیزن کی کسر نکال لیتے تھے ہم ایسے شوگر کے مریض بھی ہاتھ کھینچنے کو تیار نہ ہوتے، اگرچہ بعد میں انسولین کی مقدار دوگنا کرنا پڑی۔ اب یہی کاروبار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ہوتا ہے لیکن ہم اسلام آباد سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ سیاستدانوں میں نوابزادہ نصر اللہ خان وہ واحد سیاستدان تھے جو اپنے باغ کے آم اپنے مداحوں کو تحفے میں ارسال کرتے تھے، اب تو سیاستدان سیاست کے ذریعے جائدادیں بناتے اور لندن میں فلیٹس خریدتے ہیں لیکن نوابزادہ صاحب اپنی جائداد بیچ کر سیاست کرتے رہے۔ آخر میں آم کے ایک دو باغ ہی تھے جو اپنی وضع داری قائم رکھنے کے لیے بکنے سے رہ گئے تھے۔ ہاں یاد آیا کہ جنرل ضیا الحق نے بھارت کے حکمرانوں کو قابو کرنے کے لیے آم ڈپلومیسی بھی شروع کی تھی وہ جب تک زندہ رہے اندرا گاندھی اور ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی کو باقاعدگی سے آم کا تحفہ بھیجتے رہے۔ جنرل ضیا اُن دنوں ’’افغان جہاد‘‘ میں پھنسے ہوئے تھے اور سوویت یونین کی پیش قدمی روکنا چاہتے تھے انہیں خدشہ تھا کہ کہیں بھارت سوویت یونین کی شہ پر مشرقی سرحدوں پر گڑبڑ شروع نہ کردے اور وہ مشکل میں نہ پھنس جائیں، چناں چہ وہ بھارتی حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے انہیں آم بھی بھیجتے رہے اور کرکٹ دیکھنے کے بہانے بھارت جا کر انہیں یہ بھی باور کراتے رہے کہ اگر تم لوگوں نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو بُری طرح پچھتاؤ گے۔ پھر ایک صحافی کے ذریعے یہ خبر بھی لیک کروادی کہ پاکستان نے ایٹم بم بنالیا ہے اور بھارت کے تمام اہم شہر اس کے نشانے پر ہیں، اس طرح جنرل صاحب بھارتی حکمرانوں کو آم بھی کھلاتے رہے اور ان کا ’’تراہ‘‘ بھی نکالتے رہے۔ یہ کام بعد میں کوئی اور پاکستانی حکمران نہ کرسکا۔ اگرچہ آم ڈپلومیسی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں بھی پوری شدت سے جاری رہی، شاید ہمارے نگراں وزیراعظم ناصر الملک نے بھی آم کا تحفہ اپنے بھارتی ہم منصب کو بھیجا ہو کہ سرکاری سطح پر جو رسم پڑجائے وہ برقرار رہتی ہے کسی کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ انگریزوں کو برصغیر سے رخصت ہوئے مدت ہوگئی لیکن ان کی ڈالی ہوئی بہت سی رسمیں اب بھی چل رہی ہیں اور کچھ نہیں تو انگریزی بدستور پاکستان پر راج کررہی ہے اور قومی زبان منہ چھپائے پھر فرہی ہے۔ خیر چھوڑیے اس قصے کو آئیے پاکستان کا سب سے میٹھا آم ’’انورٹول‘‘ چوستے ہیں کہ آج ہم نے بچوں کے ساتھ گھر پر آم پارٹی برپا کر رکھی ہے۔