خوف

182

شاعر نے کہا تھا
زندگی ہم سفر ہے لیکن خوف
راستے میں اتار دیتا ہے
صاحبو! خوف بھی عجب چیز ہے۔ خوف سے بے خوف انسان شاید ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ ہم سب کسی نہ کسی خوف کے حصار میں رہتے ہیں۔ اپنے سے بڑوں کا خوف، اپنے سے چھوٹوں کا خوف، ناکامی کا خوف، طعنوں کا خوف، رگ جاں کو کاٹتے آری جیسے فقروں کا خوف، مسند پر چڑھنے کا خوف، مسند سے اترنے کا خوف، کوئی کچھ کہہ نہ دے، کوئی کچھ چھین نہ لے۔ ان گنت خوف ہمارے اندر سرسراتے رہتے ہیں۔
کب کون کس چیز سے ڈر جائے کچھ پتا نہیں۔ کوئی چھپکلی سے ڈرتا ہے توکوئی لال بیگ سے۔ کسی کی چوہوں سے جان نکلتی ہے تو کسی کی کالی بلی سے۔ ہمارے ایک دوست پانی پیتے ہوئے گلاس میں بار بار جھانکتے رہتے ہیں۔ انہیں خوف رہتا ہے پانی میں کیڑے نہ ہوں؟ انوکی بھائی سے انہوں نے اس خدشے کا ذکر کیا تو بولے ’’پانی میں کیڑے نہیں تو کیا ہاتھی گھوڑے ہوں گے۔‘‘ ایک عزیز ہیں کوئی ان کے سامنے غبارہ پھلا رہا ہو تو وہ ہردم اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ غبارہ اب پھٹا کہ تب پھٹا۔ ٹی وی اشتہارات دیکھیں۔ لگتا ہے اللہ کا اتنا ڈر نہیں جتنا جراثیم کا ہے۔ ان ظالموں کو فرش پر کھیلتے ہوئے، کلکاریاں مارتے ہوئے بچے جراثیم سے لتھڑے نظر آتے ہیں اور کھیل کے میدانوں میں چاق وچوبند بچوں کے ہاتھوں میں بھی بلے نہیں جراثیم دکھائی دیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو پیار سے ہاتھوں میں اٹھانا ہو یا بیوی کے ہاتھ کا بنا ہوا لڈو کھانا ہو پہلے جراثیم کش صابن سے ہاتھ دھو کر آئیں۔ شنید ہے کہ صدر ٹرمپ کا میابی کے بعد وائٹ ہاؤس جانے سے خوفزدہ تھے۔ انہیں اندیشہ تھا کہ وائٹ ہاؤس میں انہیں زہر دے دیا جائے گا۔ تاہم وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر شام میں میزائل برسانے کا حکم دیتے ہوئے انہیں ذرا ڈر نہیں لگا۔ مسلمانوں کا خون بہانے سے کیا ڈرنا۔
فرانسس بیکن نے لکھا ہے ’’خوف سے زیادہ خوف ناک چیز کوئی نہیں‘‘۔ ایک صاحب تھے مرنے سے پہلے بنا کسی بیماری کے سو کھ کر کانٹا ہوگئے تھے۔ انہیں موت سے پہلے موت کا خوف مارگیا تھا۔ بعض لوگ پنکھے کے نیچے لیٹنے سے ڈرتے ہیں۔ کہیں پنکھا ان پر نہ آرہے۔ بعض لوگ اندھیروں سے ڈرتے ہیں تو بعض کو تنہائی سے ہول آتا ہے۔ ایک عرصہ ہم موٹر سائیکل چلانے سے خوفزدہ رہے۔ سوئمنگ پول میں اُترنے سے آج بھی ڈر لگتا ہے۔ سب سے بڑا خوف انسان کا انسان سے خوف ہے۔ عرصہ ہوا ایک آزاد نظم لکھی تھی۔ ایک خاتون کی روداد تھی
اندھیری رات گھنے جنگل میں
بے خوف، بے خطر، میں تنہا چلی جا رہی تھی
ایک سانپ تیزی سے رینگتا ہوا
میری طرف آیا، میں نہ ڈری
درختوں کے خوفناک سایے نگلنے کو
میری طرف بڑھے، میں نہ ڈری
ایک بھیڑیا میری طرف لپکا
مجھے ذرا بھی ڈر نہ لگا
دور ایک آدمی مجھے اپنی طرف آتا محسوس ہوا
ڈر کے مارے،کا نپتی تھر تھراتی ہوئی، میں
درخت کے پیچھے چھپ گئی
امریکی اداکارہ پامیلا اینڈرسن آئینہ دیکھنے سے ڈرتی ہے۔ نکول کڈ مین کا خیال آتے ہی ذہن میں تتلیوں کے پر، ان کے رنگ روشنی دینے لگتے ہیں مگر نکول کڈ مین تتلیوں سے ڈرتی ہے۔ جینفر آنسٹن کو فضائی سفر سے خوف آتا ہے اور تو اور میڈونا کا گرج چمک سے رنگ اڑ جاتا ہے۔ امریکا کے شہریوں کو سب سے زیادہ ڈر اس بات سے لگتا ہے ان کی حکومتیں ان کے وزرا، افسران اور کہیں وہ خود کرپٹ اور بدعنوان نہ ہوجائیں۔ دہشت گردی اور مستقبل میں پیسے ختم ہو جانے کے علاوہ انہیں ہر وقت یہ ڈر بھی لگا رہتا ہے کہ کوئی ان کے اے ٹی ایم کارڈ سے پیسے نہ نکلوالے۔
اپنے بارے میں یہ تو نہیں کہتے کہ کسی بات سے ڈر نہیں لگتا لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اکثر باتوں سے ڈر نہیں لگتا۔ بتی لال ہو ہم بڑے آرام سے سگنل توڑتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ اول تو کوئی روکے گا نہیں اور اگر روک بھی لیا تو چالیس پچاس روپے میں معاملہ نمٹ جائے گا۔ نوے فی صد افراد میں تمباکو نوشی کینسر کا سبب ہے۔
ہمیں یقین ہے ہم ان دس فی صد میں سے ہیں تمباکو جن میں کینسر کا سبب نہیں بنے گا لہٰذا دوتین ڈبی روز پھونک دیتے ہیں۔ تیسری عالمی جنگ کا شور ہر طرف اٹھا ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہے تیسری عالمی جنگ ہماری زندگی میں نہیں ہوسکتی اور اگر ہو بھی گئی تو اس خطے میں ممکن نہیں جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہر جمعے مولوی صاحب قیامت سے ڈراتے رہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے ہماری زندگی میں وہ جمعہ کبھی نہیں آئے گا جب اللہ تعالیٰ حشر اٹھائیں گے۔ مستقبل قریب میں ہمیں اپنی موت کا امکان بھی دور دور دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے جنازوں کو کاندھا دیتے اور قبر میں اتارتے ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ لوگ خور ونوش میں ملاوٹ کی اشیا سے بہت ڈرتے ہیں۔ باہر کھاتے ان کی جان نکلتی ہے لیکن ہم من کو جو بھائے بلا خوف وخطر کھاتے ہیں۔ کولیسٹرول، موٹاپے، ہارٹ اٹیک، بلڈ پریشر، شوگر اور نہ جانے کون کون سے امراض ہیں جن سے لوگ سہمے سہمے رہتے ہیں۔ ان بیماریوں کے خوف سے جان ہلکان کیے رکھتے ہیں۔ صبح کے اس سمے جب نیند کی اصل لذتوں کا نزول ہوتا ہے دوڑیں لگا رہے ہیں، ورزش کررہے ہیں۔ ورزش کرنا تو درکنار مجال ہے ہم نے کبھی اس کا سوچا بھی ہو۔ نہاری، پائے، مغز، گھی میں ترتراتے پراٹھے، حلوہ پوری، جلیبیاں، ہر طرح کی مٹھائیاں، تکے، بوٹی، باربی کیو، تیز مصالحے والے کھانے کس میں ہمت ہے ہمیں ان سے روک سکے۔ غرض ہمارا جو دل چاہتا ہے کرتے ہیں لیکن آج کل ہم روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ جانے کب تحریک انصاف کا کوئی ایم پی اے ہم پر تھپڑوں کی بارش کردے۔