مشرف اور پی پی کی ٹیم کے ذریعے تبدیلی؟

509

کپتان نے حلف اٹھالیا اور دعوے کے مطابق مختصر کابینہ کا اعلان کیا ہے۔ 21 رکنی کابینہ میں اتحادیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب تک تو انقلابی تحریک انصاف مقابلوں اور انتخابی عمل سے گزر رہی تھی لیکن اب جب کہ ان کی ٹیم مکمل ہوگئی ہے، صدارتی انتخاب بھی ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف ہی جیت جائے گی۔ لہٰذا اب پی ٹی آئی کو بھی اسی عینک سے دیکھا جائے گا، اس کے اقدامات پر اسی طرح تنقید کی جائے گی جس طرح دوسری حکومتوں پر کی جاتی ہے۔ ابھی تو عمران خان کی کابینہ نے کام نہیں شروع کیا ہے لیکن ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے عمران خان کے بارے میں سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ایک تو یہ کہ کیا یہ انتخاب واقعی خان صاحب خود کرتے ہیں یا کوئی اور کرکے دے رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں جو کچھ ہوا ووٹوں کی خریدوفروخت یا دباؤ کا کام ہوا ہوگا لیکن وفاق میں جو ٹیم عمران خان نے منتخب کی ہے وہ یہ بتارہی ہے کہ انہیں کہیں سے یہ نام ملے ہیں یا ہدایات ملی ہیں۔ اس ٹیم کے 21 میں سے 12 ارکان سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں کام کرچکے ہیں اور پیپلز پارٹی دور میں وزیر رہنے والے بھی اس کابینہ کا حصہ بن گئے ہیں۔ بہرحال یہ بھی عمران خان کی مجبوری ہے کیوں کہ ان کی پارٹی میں اب اکثریت باہر سے آئے ہوئے یا مسلم لیگ اور پی پی پی وغیرہ سے ٹوٹ کر آنے والے شامل ہیں تو وہ کہاں سے نئے لوگوں کو لاتے۔ جو لوگ ان پارٹیوں میں تھے وہ کبھی پرویز مشرف کے ساتھ بھی تھے، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے میں ان کی وکالت کرنے والے فروغ نسیم بھی وزیر بن گئے۔ اب جب کہ وہ وزیر بن چکے تو سوال ازخود پیدا ہوگیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت جنرل پرویز کے خلاف مقدمہ جاری رکھے گی۔ ایک اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ عمران خان نے وزارت داخلہ فی الحال اپنے پاس رکھی ہے، گویا حکومت کے سربراہ اور وزیر داخلہ ہونے کے ناتے عمران خان پرویز مشرف کے خلاف مدعی ہیں اور ان کا وزیر پرویز مشرف کا وکیل۔ یقینی طور پر وکیل صاحب کو ایک ڈیوٹی انجام دینی ہوگی اور وزارت ہی ان کا نیا اسائمنٹ ہوگی۔ حکومتوں میں آنے جانے والوں اور پاکستانی سیاست میں پارٹیوں میں توڑ پھوڑ اِدھر سے اُدھر کرنے کے نتیجے میں سیاسی رہنماؤں یا عرف عام میں لوٹوں کی ذمے داریاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ عمران خان کو حکومت بنانے اور وزیراعظم بننے کے لیے جس قسم کے فیصلے کرنے پڑے انہیں ان پر یقیناًسبکی محسوس ہورہی ہوگی لیکن سیاست میں تقرریاں ہوتی رہتی ہیں۔ اسے تبدیل ہونا چاہیے اسی تبدیلی کا نعرہ لگا کر عمران خان سیاست میں آئے تھے لیکن نمک کی کان میں آتے ہی نمک بن گئے۔ انہیں پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو اسپیکر بنانا پڑا۔ یہ ان ہی کے الفاظ تھے۔ انہیں شیخ رشید کو وزیر بھی بنانا پڑا اور اتحاد بھی کرنا پڑا۔ اب عمران خان کو یہ جواب تو کسی کو نہیں دینا کہ انہوں نے اپنی پارٹی میں جنرل پرویز مشرف کے ترجمان فواد چودھری کو کیوں شامل کیا اور کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ فواد چودھری اس کے بعد پیپلز پارٹی میں بھی رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مشرف کابینہ کی زبیدہ جلال بھی اس ہلّے میں تبدیلی والی کابینہ میں شامل ہوگئی ہیں۔ عموماً عدالتیں اس قسم کا فیصلہ دیتی ہیں کہ بادی النظر میں یہ جرم لگتا ہے۔ تو اس وقت عمران خان پارٹی کے انتخابات میں کامیاب قرار دیے جانے سے لے کر ان کی حکومت بنائے جانے تک کے تمام مراحل میں جن حالات کا شکار ہے ان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بادی النظر میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ پیپلز پارٹی کے ناکام وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کس طرح پہلے سے زیادہ خراب حالات میں کامیاب وزیر خارجہ بن جائیں گے۔ جنرل پرویز کی خدمت کرنے والے وزیر کس طرح تبدیلی لائیں گے۔ پہلے وہ خود تو تبدیل ہوجائیں۔ عمران خان ایک انٹرویو میں دعویٰ کرچکے ہیں کہ کپتان میں ہوں لیڈر ٹھیک ہو تو سب ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ان کے اس دعوے کے بعد اب امتحان بھی عمران خان کا ہوگا۔ ان کے دعوے کو تسلیم کرلیا جانا چاہیے کیوں کہ پاکستانی قوم کی یہ عادت ہے کہ ہر دعوے اور ہر وعدے پر یقین کرلیتی ہے اور جب پانچ سال کا عرصہ گزر جائے گا تو جس قسم کی توجیحات نواز شریف، زرداری اور بے نظیر وغیرہ پیش کرتے رہے اس قسم کی باتیں پی ٹی آئی کی قیادت بھی کرے گی۔ عمران خان نے اپنی منزل پالی ہے، ان سے جو توقعات تھیں یا ان کے جو وعدے تھے اب ان کے پورا ہونے کا وقت ہے، کسی بھی پارٹی کے دعووں کا جائزہ لینا ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کیا اس کا رخ درست ہے؟ اور پی ٹی آئی کے انتخابات میں جیتنے کے لیے الیکٹ ایبلز کی سیاست سے لے کر حکومت سازی تک ہونے والی مفاہمتوں کو مدنظر رکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ اس کی سمت درست نہیں ہے تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی۔ ناکام سیاستدانوں اور عمران خان کے مقبول کرپٹ ٹولے کے ذریعے کس طرح تبدیلی آئے گی۔ کیا وی آئی پی کلچر کے دلدادہ یہ لوگ کپتان کی تبدیلی کی خواہش اور پالیسی کو کامیاب ہونے دیں گے؟