غیر قانونی مویشی منڈیاں

283

حکومت نے شہر کی صفائی ستھرائی کا خیال کرتے ہوئے کئی برس قبل کراچی میں مویشی منڈی قائم کرنے پر پابندی لگادی تھی اور شہر سے دور سپر ہائی وے پر مویشی منڈی قائم کردی تھی لیکن جس طرح اور معاملات میں چور دروازے نکالے گئے تھے اسی طرح اس کا چور دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے زمانے میں شہر میں جگہ جگہ منڈیاں قائم کردی گئیں اور اب حالت یہ ہے کہ کراچی کے ہر گلی کوچے میں منڈیاں لگ گئیں اور آج صورت یہ ہے کہ 12 ہزار من یومیہ کچرا پیدا کرنے والے شہر میں قربانی کے جانوروں کے غیر قانونی منڈیاں قائم ہیں۔ جو بلدیہ معمول کا کچرا اٹھانے کے قابل نہیں وہ یہ اضافی کچرا کیونکر اٹھا سکے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ سپر ہائی وے پر قائم مویشی منڈی اب بہت بڑا کاروبار بن گئی ہے اس لیے یا تو نوجوان وہاں پکنک منانے اور تفریح کرنے جاتے ہیں یا پھر بڑے جانوروں کی خریداری کے لیے لیکن شہر کے ہر علاقے میں یہ بکرا منڈیاں نہ صرف ٹریفک میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں بلکہ جانوروں کی غلاظت اور چارہ وغیرہ بھی پھیل رہا ہے۔ عید سے قبل ہی شہر میں بو پھیل چکی ہے۔ دوسری طرف شہری انتظامیہ اور حکومت الٹے سیدھے قوانین نافذ کررہی ہیں۔ حکومت کا اعلان ہے کہ کھالیں جمع کرنے کے لیے ضابطہ بنا دیا گیا ہے جس کے مطابق اجازت نا مہ ضروری ہوگا۔ اس کے بغیر کھال جمع نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات تو درست اور قابل قبول ہے لیکن یہ کہا کہ لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرکے کھال نہیں مانگی جاسکتی کیمپ نہیں لگائے جاسکتے۔ اور ایک اور حکم کہ کسی کے گھر جاکر کھال نہیں مانگی جاسکتی۔ لوگ خود جاکر جس کو کھال دینا چاہیں دیتے رہیں۔ یہ وہی انتظامیہ ہے جو عسکری پارک میں جھولا گرنے پر پورے سندھ کے پارکوں میں جھولوں پر پابندی لگا دیتی ہے۔ اس سے ایسے ہی احکامات کی توقع ہے۔ کیا وہ اپنے شہریوں کی نفسیات اور عادات سے واقف نہیں جو لوگ گھر کی بالکنی سے کچرے کا تھیلا سڑک پر پھینک دیتے ہیں وہ بھلا کھال کو ایک ٹوکری میں رکھ کر کسی بھی ادارے کو دینے جائیں گے اور اگر کھال گائے کی ہوئی تو!قربانی کی کھالیں پہلے ضائع بھی ہوجاتی تھیں۔ باقی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ نے ان کو محفوظ کرنے اور فروخت کرنے کا نظام بناکر غریبوں، مسکینوں کی مدد اور قوی چمڑے کی صنعت دونوں کے لیے ایک گراں قدر کام کیا تھا۔ آج اپنے ہی ملک میں حکومت دینی جماعتوں اور دینی مدارس کو کھالوں سے محروم کرنے کے چکر میں قومی صنعت کو بھی تباہ کرنے پر تل گئی ہے۔