وزیراعظم عمران کا پہلا خطاب ، مجموعی طور پر مثبت تبدیلی کی نوید تھا

149

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے قوم سے اتوار کو پہلے خطاب سے یقیناًقوم کو مسرت ہوئی ہوگی۔ وزیراعظم عمران کا پہلا خطاب مجموعی طور پر مثبت تبدیلی کی نوید تھا۔ اور یہ خطاب عوامی خواہشات کے عین مطابق تھا ۔ خصوصاً سادگی اپنانے ، وزیرعظم ہاوس ، گورنر ہاوس ، سی ایم ہاوس اور بیورو کریسی کے بڑے بڑے سرکاری گھروں کی فروخت کا مثالی اور ملک کا تاریخی فیصلہ ہے۔ عمران خان کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ملک و قوم کی فلاح و بہبود ، ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ساتھ ہی وہ قرضوں سے نجات دلانے کے لیے انہوں نے وزیراعظم کے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کی نوید بھی سنائی۔ عمران خان نے سادگی اپنانے کا ذکر کیا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سادہ زندگی کے اظہار کے لیے وہ ذاتی طور پر کیا کچھ کریں گے تاکہ قوم ان کی تقلید کرسکے۔ لوگوں کو توقع ہے کہ وہ اپنی ذاتی رہائش گاہ اور ذاتی زندگی کو بھی مثالی بنائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے 48 گھنٹوں سے پہلے اور اپنی کابینہ کی تقریب حلف برادری سے قبل کراچی کے مسائل اور ضرورتوں کا خصوصی طور پر ذکر کرکے یقیناًکراچی کے لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنالی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان کا اپنے انتخابی منشور کے مطابق اس بات کا اعلان کہ وہ نیب کو بھی فعال کریں گے اور کرپشن کا سدباب کریں گے اگر انہوں نے اپنے کرپشن کے سدباب کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کیا تو خدشہ ہے کہ سندھ میں نو منتخب پیپلز پارٹی کی حکومت سخت مشکلات میں آئے گی جبکہ سابق صدر و نومنتخب رکن ومی اسمبلی آصف زرداری ، ان کی بہن ان کے قریبی دوست اور سندھ اسمبلی کی منتخب وہ شخصیات جو کرپشن کے الزامات کی لپٹ میں آئے ہوئے ہیں مزید پریشانی کا شکار ہوجائیں گے امکانات اور شخصیات بھی ہیں کہ ان میں سے بیشتر شخصیات بیمار ہوکر یا مختلف وجوہات کی بناء4 پر ملک سے راہ فرار اختیار کریں۔ عمران خان کے خطاب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بیرون ممالک اور خارجہ پالیسی کے امور سے زیادہ اندورن ملک کے مسائل کا حل زیادہ ضروری ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے ، مالی معاشی ، تعلیمی اور کرپشن سے پاک کرکے مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عمران خان کے سی ایم گورنرز اور دیگر بڑی سرکاری رہائش گاہوں کو فروخت کرنے کے فیصلے پر صوبوں خصوصا سندھ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ 18 ویں ترمیم کے تحت اراضی کا کنٹرول صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔