پرجوش تقریر+عجلت پر مبنی اقدامات

352

کیا وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اعلان کو پاکستان کے نہ بچنے کا اعلان سمجھا جائے۔ ان کی تقریر کا یہی مطلب نکل رہا ہے کہ گھبرانے والا نہیں اب ملک بچے گا یا کرپٹ مافیا۔ ہماری دعا ہے کہ عمران خان کی خواہش پوری ہو اور کرپٹ لوگوں کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن جن لوگوں کو ساتھ لے کر وہ اس عظیم جہاد کے لیے نکلے ہیں ان میں سے کسی کے تائب ہونے کی تا حال کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ایسے میں کرپٹ مافیا ختم نہیں ہوگی۔ تو پھر۔۔۔ وزیراعظم عمران خان کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد پہلی تقریر کی اہم باتوں میں سب کا احتساب کرنے کی بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جب کہ اس منصب پر آنے سے قبل جلسوں، جلوسوں اور کنٹینر والی بہت سی باتیں خان صاحب نے قوم سے خطاب میں بھی دہرادیں۔ گورنر ہاؤس کو اور وزیراعظم ہاؤس کو جس روز وہ یونی ورسٹی بنائیں گے اس روز ان کے جلسوں والا وعدہ پورا ہوجائے گا۔ لیکن اب اسمبلی میں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کے عزائم اچھے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد بھی وہ کسی بات سے پھرے نہیں ہیں اور اب تک خود کوئی یوٹرن نہیں لیا ہے ان کے ترجمان اور دوسرے لیڈر ضرور ان کی جانب سے وضاحتیں کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر گورنر ہاؤس کو گرانے کے بیان کی وضاحت عمران اسماعیل کو کرنی پڑی۔ قومی اسمبلی سے پہلے خطاب کی وضاحتیں شاہ محمود قریشی کو کرنی پڑیں کہ عمران خان صاحب یعنی وزیراعظم صاحب در اصل یہ کہنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن کے ہنگامے نے ان کو کچھ اور کہنے پر مجبور کردیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی نے تقریروں کے معاملے میں عمران خان کی صلاحیت کو کم تر ثابت کرنے اور ان کی غلطیاں اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی کہ انھیں جذبات پر قابو نہیں رہا وہ تقریر کے فن سے ناواقف ہیں۔ بہر حال عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم قوم سے خطاب بحیثیت وزیراعظم یا تحریک انصاف کے سربراہ کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس خطاب کا محور ’’میں‘‘۔ تھا میں گھبرانے والا نہیں، میں ملٹری سیکرٹری کے گھر پر رہوں گا، میں دو گاڑیاں رکھوں گا، میں دو ملازم رکھوں گا، کوئی کاروبار نہیں کروں گا، سادگی اپنا کر دکھاؤں گا، ملک سے پیسہ باہر لے جانے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ ان کی تقریر میں کریں گے اور دیں گے والے الفاظ بھی شامل تھے لیکن پوری تقریر کا تاثر ’’میں‘‘ کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس کا سبب شاید گزشتہ پانچ سال سے مسلسل احتجاج اور اپوزیشن کا انداز سیاست ہو۔ رفتہ رفتہ یہ عادت چلی جائے گی۔ حیرت انگیز طور پر خارجہ امور امریکا سے تعلقات میں کشیدگی، سی پیک، کشمیر، افغانستان اور داعش یا طالبان کے معاملات پر تقریر میں کوئی بات نہیں کی۔ یہ تو تقریر تک بات تھی لیکن اگلے روز جو پہلا باضابطہ سیاسی و سرکاری حکم جاری ہوا وہ کسی گورنر ہاؤس یا وزیراعظم ہاؤس کو یونی ورسٹی بنانا نہیں تھا۔ وہ عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ وہ حکم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے یا پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے معاملات سے بھی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ وہ پہلا حکم شریف خاندان کے خلاف تھا۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ یقینی طور پر جو کچھ اخبارات اور میڈیا کے دوسرے ذرائع پر نظر آرہا ہے اس تناظر میں یہی اقدام کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس کی بنیاد کیا ہے۔ کیا وزیراعظم کسی درخواست کسی عدالتی حکم کی بنیاد پر ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ سابق کابینہ کے ملتوی شدہ ایجنڈے کا حصہ تھا جس کو تمام اشیا پر فوقیت دی گئی لیکن اس کا تاثر بھی اچھا نہیں رہا۔ کیونکہ اس کا یہ مطلب لیا گیا ہے کہ خان صاحب اب شریف خاندان کو اپنا حریف سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ کام نئی کابینہ ہی کو کرنا تھا لیکن اس کی جلدی کیا تھی۔ اس کی جلدی یوں تھی کہ اس بات کا امکان تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا فیصلہ پیر کو آنے والا ہے۔ اگر فیصلے میں سزا معطل کی جائے تو کم از کم باپ بیٹی اور داماد ملک سے باہر نہ جاسکیں۔ جہاں تک وزیراعظم کی تقریر کے دیگر نکات کا تعلق ہے تو بیشتر کا تعلق طویل المیعاد منصوبوں اور وقت طلب عمل در آمد سے ہے۔ان میں سے کوئی چیز بیک جنبش قلم ممکن نہیں ۔جو چیز تھی اس کا حکم وزیراعظم نے دے دیا۔ ابھی تو وزارتوں میں ہلچل ہے ایوان وزیراعظم میں بے چینی ہے، سیکرٹریٹ میں خدشات ہیں کیونکہ کچھ بھی کہا جائے حکومت میں ایک مختلف قسم کا وزیراعظم آیا ہے۔ ناتجربہ کاری یا قوانین اور ضابطوں سے ناواقفیت کے سبب ان سے کسی بھی قسم کے فیصلوں یا احکامات کے ظہور کا ہر وقت خدشہ رہے گا۔ اچھے عزائم کے ساتھ آنے والے نئے وزیراعظم کو احتیاط، تحمل اور مشاورت کا رویہ اختیار کرنا ہوگا، جلد بازی، جوش اور غصہ ان کے مستقبل کو مخدوش بناسکتا ہے۔ وفاقی کابینہ نے دیگر اعلانات بھی کیے ہیں جو خوش آئند ہیں۔ قوم اس نعرے کو اب حقیقت بنتے دیکھنا چاہتی ہے کہ تبدیلی آنہیں رہے۔ تبدیلی آگئی ہے۔