نیا پاکستان مگر نیا کیا ہے؟

224

یہ سمجھنا مشکل ہے کہ نیا پاکستان میں ’’نیا‘‘ کیا ہے اور کیا ہوگا؟ قائد اعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان 14 اگست 1947 میں بنایا تھا اس میں برا کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان جس نظریے کے تحت بنا تھا اور جو منشور قائد اعظم نے اس پاک وطن کو چلانے کے لیے دیا تھا اس پر عمل درآمد نہ کرکے خود ہم عوام نے تبدیل کردیا۔ بعد میں آنے والے وزراء اعظم اور حکومتوں نے قائد کے پاکستان کو ان کے اصولوں اور منشور کے مطابق چلانے کے دعوے کیے لیکن ناکام ہوئے۔ تاہم اب تحریک انصاف ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی بازگشت میں اقتدار میں آگئی۔ قومی اسمبلی نے جمعہ کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی و چیئرمین عمران خان نیازی کو مسلسل جمہوریت کے تیسرے دور کا پانچواں اور ملک کا 22 واں وزیراعظم منتخب کرلیا۔ ملک کے 22 ویں وزیراعظم عمران خان اس لحاظ سے بھی ملک کے واحد حکمران ہوں گے کہ انہیں 22 کروڑ پاکستانیوں کی حکمرانی حاصل ہے یہ ان کی خوش قسمتی سے زیادہ ان کے لیے چیلنج بھی ہوگا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے جاری سیشن کے دوسرے اور تیسرے اجلاس میں وزیر اعظم کا انتخاب کیا گیا جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم منتخب کرلیا گیا اور پھر انہوں نے حلف بھی اٹھایا۔ تین مرتبہ ملک میں حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پہلی بار وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا جبکہ تین مرتبہ حکومت میں رہنے والی مسلم لیگ نواز نے وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ لینے کے باوجود سخت احتجاج کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زردای پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے مگر وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹ نہیں ڈالا۔ لیکن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کے لیے کہا کہ وہ سب کے وزیراعظم ہیں گو کہ انہوں نے عمران خان کو وزیراعظم کا ووٹ نہ دینے کے باوجود وزیراعظم قبول کرلیا۔ انہوں نے عمران خان کو ’’سلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ بھی قرار دیا۔ شاید اس لیے کہ صرف بلاول زرداری ہی نے نہیں بلکہ ان پیپلزپارٹی کے کسی رکن اسمبلی نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ جنہوں نے عمران خان کو وزیراعظم کا ووٹ دیا اور اس پولنگ میں حصہ لیا شاید بلاول اسے انتخابات ہی نہیں مانتے۔
وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ اس میں نہ صرف اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز نے شور شرابا کیا بلکہ سرکاری سیٹیں حاصل کرنے والی تحریک انصاف نے بھی شہباز شریف کی تقریر کے دوران دل کھول کر نعرے بازی کی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے تو وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرکے وزیراعظم کی ’’سلیکشن‘‘ کی کارروائی میں حصہ ہی نہیں لیا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے انتخاب کا حصہ بننے سے بھی گریز کیا بلکہ ایک لحاظ سے پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سب کے وزیر اعظم ہیں انہیں سب کے وزیراعظم کے طور پر کام کرنا ہوگا۔ بلاول زرداری نے وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کے باوجود یہ کہا کہ ہم جمہوریت کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد اپنی تقریر میں بلاول نے انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تحقیقات کا مطالبہ کیا انہوں نے ان سانحات میں شہید ہونے والے سراج رئیسانی اور دیگر کو خراج عقیدت بھی پیش کیا مگر عمران خان اور شہباز شریف نے واقعات کا ذکر تک نہیں کیا بالکل اسی طرح جسے عمران خان نے اپنی تقریر میں کرپشن کرنے والوں کا پر زور ذکر کیا لیکن شہباز شریف اور بلاول زرداری نے کرپشن اور کرپٹ عناصر کے حوالے سے ایک لفظ تک نہیں کہا۔
وزیر اعظم کے انتخاب کے اجلاس کی مجموعی کارروائی سے ایسا تاثر ملا کہ عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن کے مقابلے میں زیادہ خطرہ تحریک انصاف کے اندر ہی سے رہے گا۔ عمران خان کی تقریر بھی مفاہمت کے بجائے مخاصمت کا عندیہ دے رہی ہے۔ اجلاس میں منتخب وزیراعظم عمران خان کا خطاب وزیر اعظم سے زیادہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کی عکاسی کررہا تھا۔ مگر پھر بھی یہ کہا جارہا ہے کہ یہ نئے وزیر اعظم کا نیا پاکستان ہے۔ حالاں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی جس 20 رکنی کابینہ کا اعلان کیا ہے اس میں سوائے اسد عمر کے سوا کوئی بھی نیا چہرہ نہیں ہے جب پہلی کابینہ پرانے چہروں پر مشتمل ہوگی تو نیا پاکستان کیسا کہلائے گا؟ وعدے اور اعلانات تو سارے حکمران کرگئے مگر قوم اب وعدے وفا ہوتے دیکھنا چاہ رہی ہے۔