وزیراعظم عمران خان نے وفاق میں حکومت سنبھال لی ہے اور 21 رکنی وفاقی کابینہ کا اعلان کیا ہے، جن میں16وزراء اور پانچ مشیر شامل کیے گئے ہیں‘ کابینہ میں فواد چودھری‘ بیرسٹر فروغ نسیم‘ عامر کیانی‘ اسد عمر‘ شیری مزاری کے علاوہ باقی سب پرانے مستری ہیں‘ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ بلیک میل نہیں ہوں گے لیکن متحدہ نے دو وزارتیں مانگی انہیں دو ہی وزارتیں دینا پڑیں‘ قاف لیگ ایک وزارت لے اڑی‘ شیخ رشید احمد نے صاف صاف کہا تھا کہ وہ وزارت کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں‘ یو کہہ لیں کہ کابینہ میں جس نے جو حصہ مانگا اسے دینا پڑا‘خالد مقبول صدیقی‘ نورالحق قادری‘ شاہ محمود قریشی‘ شیخ رشید احمد‘ زبیدہ جلال کابینہ میں شامل رہ چکی ہیں کابینہ میں ایک وزیر تو بہت ہی دلچسپ ہیں کہ وہ عمران خان کی کابینہ میں ہیں مگر غداری کیس میں جنرل پرویز مشرف کے وکیل بھی ہیں اور انہیں وزارت قانون کا قلم دان دیا گیا ہے‘ اب وزارت قانون ہی پرویز مشرف کی قسمت کا فیصلہ کرے گی‘ اس کیس میں پراسیکیوٹر شیخ محمد اکرام استعفا دے چکے تھے لیکن انہیں وزارت داخلہ نے روک دیا ہے اور وزارت داخلہ براہ راست وزیر اعظم کے ماتحت کام کرے گی یہ صورت حال اپنی جگہ خود بہت دلچسپ بنی ہوئی ہے اسے ایک عجیب کمبی نیشن بھی کہا جاسکتا ہے۔
فواد چودھری کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنایا گیا ہے۔ 2012ء میں پیپلزپارٹی میں تھے‘ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کے ترجمان بنے‘ اس کے بعد ان کا رخ تحریک انصاف کی جانب موڑ دیا گیا شفقت محمود کو وفاقی وزارتِ تعلیم و نیچرل ہسٹری دی گئی ہے‘ وہ سابق ڈی ایم جی آفیسر ہیں‘ پیپلزپارٹی کے دور میں سینیٹر بنائے گئے تھے‘ پھر معراج خالد کی نگران حکومت میں چلے گئے‘ مسلم لگ (ن) کی بیگم عشرت اشرف کے قریبی عزیز ہیں‘ تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ میں طارق بشیر چیمہ کو ریاستوں اور سرحدی علاقوں کا وزیر بنایا گیا ہے‘ پیپلزپارٹی میں رہے‘ الذوالفقار میں گئے‘ جاٹ خاندان سے تعلق ہونے کے باعث چودھری ظہور الٰہی خاندان سے مراسم بنے اور آج تک یہ مراسم قائم ہیں مخدوم خسرو بختیار بھی مشرف لیگ‘ اور مسلم لیگ(ن) سے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں پہنچے ہیں غلام سرور خان، پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر رہے‘ 2002 میں چاند کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا‘ اور قاف لیگ میں چلے گئے‘ وزیر لیبر بنائے گئے اب وہ عمران خان کابینہ میں پٹرولیم کے وزیر ہیں، اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا گیا‘ اسد عمر ایسے وزیر ہیں جن کی وزارت اور محکمہ یقینی تھا، وہ پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹر کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر سیاست میں آئے تھے، عمران خان کے ہمیشہ قریب رہے، اب ملکی معیشت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنا اُن کا امتحان ہو گا، اِس مقصد کے لیے اُنہیں ماہرین کا تعاون بھی مل سکے گا، جو مشیروں کی شکل میں شاملِ حکومت ہیں، تاہم وزیراعظم کے اقتصادی ویژن کو کامیاب بنانا اُن کی بنیادی ذمے داری ہو گی، جو آسان کام نہیں ہے۔ ان کا نام بہت عرصے سے اس عہدے کے
لیے لیا جا رہا تھا، اُن کے بڑے بھائی زبیر عمر ابھی چند دن پہلے تک سندھ کے گورنر تھے‘ ان کے والد جنرل غلام عمر‘ سقوط ڈھاکا کے ذمے داروں میں شمار ہوتے ہیں، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں اس کا ذکر ہے‘ امین اسلم وزیراعظم کے مشیر ہوں گے‘ یہ پیپلزپارٹی کے رہنماء احمد مختار کے بھائی احمد سعید کے داماد ہیں‘ ڈاکٹر عشرت حسین کو بھی مشیر بنایا گیا ہے جو اسٹیٹ بینک کے گورنر رہے امریکی لابی کے آدمی ہیں‘ بابر اعوان مشیر پارلیمانی امور بنائے گئے ہیں‘ اسلامی جمعیت طلبہ میں رہے‘ اس کے بعد مسلم لیگ (ج) میں چلے گئے‘ مسلم لیگ (ج) ہاؤس جی سکس فور میں راقم کے مشورے سے مسلم لیگ (ج) میں سیکرٹری اطلاعات بنے‘ اس کے بعد پیپلز پارٹی میں چلے گئے‘ اور ابھی تک آخری سیاسی ٹھکانہ تحریک انصاف ہے‘ عبدالرزاق داؤد بھی جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں وزیر تھے‘ صنعت کار ہیں‘ پرویز خٹک وزیر دفاع بنائے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں آفتاب شیر پاؤ گروپ میں تھے ‘ خیبر پختون خوا میں وزیراعلیٰ رہے‘ پرویز خٹک کو فی الحال دفاع کا محکمہ دیا گیا ہے، لیکن وہ شاید وزارتِ داخلہ چاہتے تھے اِسی لیے انہوں نے کہا ہے کہ تین ماہ بعد انہیں یہ نئی وزارت دی جائے گی، ویسے تو ان کی پہلی ترجیح خیبر پختون خوا کی وزارتِ علیا ہی تھی، لیکن وزیراعظم نے اُن کے لیے وفاق میں نئی ذمے داری تلاش کی ہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا‘ اپنے شوہر کی گرفتاری کے بعد سیاست میں آئیں‘ قومی اسمبلی کی رکن بنیں‘ 2008ء کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی اسپیکر رہیں‘ ضیاء االحق دور میں وزیر اطلاعات عبدالمجید عابد کی صاحب زادی ہیں‘ اور روزنامہ عبرت کے اسد قاضی کی ہمشیرہ ہیں‘ ان دنوں اب جی ڈی اے کی بدولت وفاقی کابینہ کا حصہ بنی ہیں یہ وہ حقائق ہیں جو آج کل عمران خان سے جڑ گئے ہیں۔
ڈاکٹر شیریں مزاری بنیادی طور پر صحافی ہیں، انگریزی زبان اُن کے اظہارِ خیال کا ذریعہ ہے، وہ پہلی مرتبہ سیاست میں آئیں تو تحریک انصاف میں شامل ہوئیں۔ دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کی رُکن بنی ہیں، اُن کا انتخاب مخصوص نشستوں پر ہوا ہے، براہِ راست یا بالواسطہ الیکشن لڑنے کا اُنہیں کوئی تجربہ نہیں، تاہم بطور ایم این اے اُن کا کردار ایوان میں خاصا متحرک رہا اگرچہ کابینہ ’’شرطیہ نیا پرنٹ‘‘ نہیں ہے لیکن اس کے ذمے فرائض نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ہیں، لیکن یہ تو کام کی رفتار اور نتائج سے ہی اندازہ ہو گا کہ پرانے وزیروں نے کتنی کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالا ہے، بعض چہرے تو روایتی وزیر ہیں وہ اگر پُرانی ڈگر سے ہٹ کرکوئی نیا کارنامہ انجام دیں گے تو فوراً ہی پہچانے جائیں گے، کیوں کہ یاد نہیں پڑتا کہ سابق وزارتوں میں انہوں نے کوئی ایسا کام انجام دیا ہو جسے لوگ اب تک یاد رکھے ہوئے ہوں، بس وہ ایسے ہی روایتی وزیر تھے جیسے وزیر عموماً ہوتے ہیں اور چوں کہ وزارتیں بعض چہروں کے مقدر میں لکھی جا چکی ہوتی ہیں اِس لیے اُنہیں وزیر بنانا پڑتا ہے۔ کابینہ کے21چہروں میں آدھے سے زیادہ‘ تقریباً بارہ چہرے وہی ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں مُلک کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیروں کی حد تک جنرل پرویز مشرف کا دور واپس آ گیا ہے۔