میثاق جمہوریت کی چنگاری

168

حکومت ابھی تشکیل کے مراحل ہی میں تھی کہ میثاق جمہوریت کی وارث دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان دیرپا اتحاد کا خواب بکھرنا شروع ہوگیا۔ حکومت کے خدوخال اور نقوش ابھی پوری طرح واضح بھی نہیں ہوئے تھے کہ قومی اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب نے اس اختلاف کا منظر بڑی حد تک واضح کر دیا۔ حکومت سازی کے اس مرحلے تک بظاہر دونوں جماعتیں کسی حد تک متحد نظر آئیں مگر اس سے آگے متحد ہو کر چلنے کی سکت پراسرار طور پر جواب دیتی چلی گئی۔ وزیر اعظم کے انتخاب میں ساجھے کی یہ ہنڈیا پوری طرح پھوٹ کر رہ گئی۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن نے نوازشریف کے بیانیے کے تحت ایوان میں پرشور احتجاج کیا جبکہ پیپلزپارٹی نے احتجاج کا الگ انداز اپنا کر اپنے راستوں کے الگ ہونے کا پیغام دیا۔ اس احتجاج میں شہباز شریف کے لیے بھی ایک انتباہ تھا کہ ان کی سیاست جو اب تک نوازشریف کے نام ہی کی محتاج ہے مزاحمت اور ہلچل کی صورت ہی میں زندہ رہ سکتی ہے۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر شہباز شریف اس مرحلے پر سپر ڈالتے نظر آئے۔ ابتدا میں اس اصول پر اتفاق کی خبریں سامنے آرہی تھیں کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار شہباز شریف، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے نمائندے ہوں گے۔ پہلا مرحلہ تو بخیر وخوبی مگر کچھ رد وکد کے ساتھ گزر گیا۔ دوسرے مرحلے میں پیپلزپارٹی نے شہباز شریف کے نام پر اعتراض کر دیا۔ اس اعتراض کی وجہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے شہباز شریف کے ماضی کے بیانات کو بتایا گیا۔ جس سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ پیپلزپارٹی کو مسئلہ مسلم لیگ ن سے نہیں شہباز شریف سے ہے۔
شہباز شریف کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اپنے بھی خفا اور بیگانے بھی ناخوش۔ پیپلزپارٹی ان کے ماضی کے بیانات اور پیپلزپارٹی کے حوالے سے تلخ بیانات سے ناراض ہے تو مسلم لیگ کے اندر عقاب انہیں نوازشریف کا بیانیہ آگے بڑھانے میں ناکامی کا سزاوار قرار دے رہے ہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ تصادم اور چھیننے اور جھپٹنے کی تصور کے گرد گھومتا تھا اسی امید پر وہ وطن واپس بھی لوٹ آئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں طاقت سے طاقت چھیننے کا فیصلہ کن لمحہ آگیا ہے مگر یہ مغالطہ ہی ثابت ہواکیوں کہ جمے جمائے نظام میں ایسا کسی بڑی اتھل پتھل کے بغیر ممکن نہیں ہوتا اور اس چھینا جھپٹی میں ملک سول اسٹرکچر سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
پارلیمانی سیاست کے اپنے آداب اور کلچر ہوتا ہے۔ اس سیاست میں انقلابی نعرہ اور رنگ ڈھنگ ایک حد تک ہی چلتا ہے۔ یہ مفاہمت اور سمجھوتوں کی دنیا ہوتی ہے۔ یہاں منتخب لیڈر بھی مطلق العنان اور ظلِ سبحان نہیں سسٹم کا قیدی ہوتا ہے۔ قدم قدم پر چیک اینڈ بیلنس نے حکمران کے لیے سانس لینا تک دشوار کر رکھا ہوتا ہے۔ یہاں انقلابی نعروں کے ساتھ سیاست میں ہلچل مچانے اور نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکا کر انہیں سیاست میں متحرک کرنے والے عمران خان ابھی سے جمہوریت کے لیے ناگزیر مفاہمت اور مجبوریوں کے آگے سپر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان کے الیکٹ ایبلز، ان کی کابینہ، مشیروں اور اتحادیوں کی فہرست دیکھیں تو قدم قدم پر یہ مجبوری جھلک رہی ہے۔ اس لیے میاں نوازشریف کے جانثاروں اور ن لیگ کے عقابوں نے شہباز شریف سے چی گویرا بننے کی بے کار توقع وابستہ کیے رکھی۔ شہباز شریف چی گویرا بن تو جاتے مگر وہ پارلیمانی اور جمہوری نظام کے ساتھ چلنے نہ پاتے۔ پارلیمانی اور جمہوری نظام ایک حد تک ہی انقلابیت کو ہضم کرتا ہے اس سے آگے وہ انقلاب اور انقلابی کو اُگل دیتا ہے۔
سید خورشید شاہ کی اسپیکر شپ تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کا ساتھ چلنا اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ تک پہنچتے پہنچتے راستوں کا یوں جدا ہونا معنی خیز ہے کیوں کہ یہ تاثر قائم ہے کہ آصف زرداری کا دل اب بھی میاں نوازشریف کے ساتھ دھڑک رہا ہے مگر مجبوریاں حائل ہیں۔ ان مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں۔ بلاشبہ خورشید شاہ ایک اچھے اور سینئر پارلیمنٹیرین رہے ہیں مگر انہوں نے ایک آئیڈیل اپوزیشن لیڈر کی طرح حکومت کو صحیح راستے پر رکھنے کے بجائے دوستانہ اسٹائل اپنائے رکھا۔ اپوزیشن اگر متحرک اور جمہوری اصولوں کے مطابق کام کرے تو احتسابی اداروں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی کیوں کہ حزب اختلاف کا دوسرا نام حزب احتساب ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے اس دوستانہ رویے کا صلہ عقابوں نے انہیں ووٹ کی صورت دیا ہو اور جس کے بعد انہوں نے شہباز شریف کو مشترکہ ووٹ اور امیدوار کے اعزاز سے محروم کرکے انقلابی بیانیہ آگے نہ بڑھانے کی سزا دینے کی حکمت عملی اختیار کی ہو۔ وگرنہ شہباز شریف کے ماضی کے بیانات اس قدر بھی قابل گرفت نہیں تھے کہ برسوں بعد پیپلزپارٹی انہیں سینے سے سجائے رکھتی۔
میثاق جمہوریت جس ماحول اور فضاء میں ہوا تھا اس کے پیچھے تلخ ماضی کی یادوں کا اور تند وتیز جملوں کا بوجھ تھا۔ سیاست میں سال دوسال پرانے بیانات کی فائلیں تلاش کرنے کا رواج کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے باجود مجبوریاں پیپلزپارٹی کی بھی تھیں اور شہباز شریف کی بھی اور یہ مشترکہ بھی تھیں۔ مجبوریوں کے یہ بوجھ اُٹھا کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میثاق جمہوریت کی راہ پر زیادہ دیر تک متحد ہو کر آگے بڑھتی نظر نہیں آتی مگر عمران خان کی حکومت اور اقدامات دوانتہاؤں کو متحد کر سکتے ہیں اور یوں میثاق جمہوریت کے اُڑتے پرزوں میں تحریک انصاف کی حکومت کا امتحان بھی پنہاں ہے وہ ایک کرم خوردہ فائل اور ریزہ ریزہ کاغذ کو زندہ حقیقت بھی بنا سکتی ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ صدارتی انتخاب کا مرحلہ اور اس کے بعد آنے والے انتخابی اور پارلیمانی مراحل میں میثاق جمہوریت اور مفاہمت کی سیاست زندہ بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ چنگاری حالات کی راکھ میں دبی ہوئی تو ہے مگر بجھی نہیں۔