ترے وعدہ پرجیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا

938

نئے پاکستان کا جو سبز باغ عمران خان نے دکھایا تھا وہ کابینہ کی تشکیل کے بعد ایسا جان پڑتا ہے کہ ماضی کے گھنے جنگل میں گم ہوگیا ہے۔ ان کی کابینہ کے اکیس وزیروں میں بارہ وزیر وہ ہیں جو سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں وزارت کے منصب پرفائز رہے ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف کا یہ نعرہ رہا ہے ہم ’اسٹیٹس کو‘ توڑ دیں گے۔ وعدہ ہے کہ موجودہ حالات کو بدل دیں گے۔ لیکن یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے حالات بدلنے کے بجائے ماضی کی راکھ میں بجھی چنگاریاں تلاش کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔ ان میں نمایاں شیخ رشید احمد ہیں جو اپنی جماعت عوامی مسلم لیگ کے قومی اسمبلی میں واحد رکن ہیں لیکن وہ عمران خان کے دھرنے کے دنوں کے قریبی ساتھی ہیں۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کیا کیا کچھ نہیں کہا لیکن اس کے باوجود شیخ رشید عمران خان کے ساتھ ایسے چمٹے رہے جیسے ایک قلب دو جان۔ اس پورے عمل میں شیخ رشید نے اپنے ماضی کو چھپانے کی بھر پور کوشش کی اور آخر کار وفا داری کا پھل انہیں اس وزارت کی صورت میں ملا جو وزارت انہیں فوجی آمر پرویز مشرف نے عطا کی تھی۔ مشرف کے دور میں شیخ رشید، فوجی آمر کی ناک کا بال تصور کیے جاتے تھے اور وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے فوجی حکومت کے ترجمان اعلیٰ مانے جاتے تھے۔ لوگوں کو تعجب ہوا جب نواز شریف کے استعفے کے بعد تحریک انصاف نے شیخ رشید کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار نامزد کیا تھا۔
ایم کیو ایم کے موجودہ قومی اسمبلی میں صرف سات اراکین ہیں لیکن عمران خان نے ان کی حمایت کو اس قدر اہمیت دی کہ اپنی کابینہ میں ان کے دو اراکین کو وزارتیں دی ہیں۔ ان میں ایک فروغ نسیم ہیں جنہیں وزیر قانون اور انصاف کا عہدہ دیا گیا ہے۔ فروغ نسیم سابق فوجی آمر مشرف کے دور میں وزیر رہ چکے ہیں اور غالباً اس دور کی قربت کی بناء پر پرویز مشرف نے اپنے خلاف غداری کے مقدمہ میں فروغ نسیم کو اپنا وکیل مقرر کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے دوسرے رکن خالد مقبول صدیقی ہیں جنہیں عمران خان نے اپنی کابینہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر کا عہدہ دیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی بھی سابق فوجی آمر مشرف کے دور میں وزیر رہے ہیں۔
چودھری طارق بشیر چیمہ کو سرحدی علاقوں کے امور کا وزیر بنایا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ پیپلز پارٹی کے پرانے رہنما تھے جن پر دہشت گرد الذوالفقار تنظیم کا رکن ہونے کا شبہ تھا اور اسی شبہ میں وہ لاہور سینٹرل جیل میں قید تھے۔ 1981 میں جب پی آئی اے کے طیارہ کو اغوا کیا گیا تھا تو اس کے مسافروں کی رہائی کے عوض جن افراد کو رہا کیا گیا تھا ان میں چودھری طارق بشیر چیمہ شامل تھے۔ ایک عرصہ یہ ملک سے باہر رہے۔ 2003 میں جب بے نظیر بھٹو نے انہیں بھاولپور کی پیپلز پارٹی کے ڈیویژنل صدر کے عہدہ سے برطرف کیا تو یہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پرویز مشرف کی باندی مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے اور پچھلے عام انتخابات میں وہ اسی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور عمران خان کی حمایت کے عوض انہیں وزارت عطا کی گئی۔
ایک اور پرانے پیپلز پارٹی کے رہنما غلام سرور کو جو 2004 میں پرویز مشرف کے وزیر اعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں افرادی قوت کے وزیر تھے، عمران خان نے پیٹرولیم ڈویژن کا وزیر مقرر کیا ہے۔
زبیدہ جلال، 2002 کے عام انتخابات میں مشرف کی لے پالک جماعت مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر بلوچستان سے قومی اسمبلی میں منتخب ہوئی تھیں۔ مشرف کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے انہیں وزیر تعلیم کا عہدہ تفویض کیا تھا۔ 2008 میں بھی انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا۔ اس انتخاب کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر ایف آئی اے نے زبیدہ جلال کے خلاف دینی مدارس کو قومی دھارے کے تعلیمی نظام میں ضم کرنے کے پروگرام کے لیے منظور شدہ پچاس کروڑ روپے کے فنڈ میں بد عنوانی کے الزام کی تحقیقات کی تھی۔ زبیدہ جلال نے کرپشن کے اس الزام کی پُرزو ر تردید کی تھی اور آخر کار شہادتوں کی کمی کی وجہ سے یہ تحقیقات ترک کر دی گئی تھی۔ تاہم 2010 میں PILDTکی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زبیدہ جلال، بلوچستان میں دوسری سب سے زیادہ مال دار شخصیت ہیں۔ ان کے کل اثاثے پانچ کروڑ اٹھتر لاکھ روپے سے زیادہ کے ہیں۔ زبیدہ جلال، پرویز مشرف کا روشن خیال چہرہ مانی جاتی تھیں۔ 2008 میں مشرف کے خلاف مواخذہ کی مہم میں زبیدہ جلال، مشرف کی حمایت میں پیش پیش تھیں۔ بہت سے لوگوں کو عمران خان کی کابینہ میں زبیدہ جلال کی شمولیت پر تعجب ہوا ہے خاص طور پر ان پر بدعنوانی کے شکوک و شبہات کے پیش نظر۔ عمران خان نے انہیں اپنی کابینہ میں دفاعی پیداوار کا قلم دان دیا ہے۔
مخدوم خسرو بختیار 2004 میں مشرف کے دور میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ رہ چکے ہیں۔ انہیں بھی عمران خان نے آبی وسائیل کی وزارت تفویض کی ہے۔
چودھری فواد احمد کے بارے میں تو کچھہ پوشیدہ نہیں کہ وہ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے ترجمان رہے ہیں۔ 2012 میں انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی اور بڑی تیزی سے یوسف رضا گیلانی اور راجا پرویز اشرف کی کابینہ میں وزارت حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ 2016 میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور سب نے دیکھا کہ کس سرعت سے وہ عمران خان کی ناک کا بال بن گئے۔ کہا جارہا تھا کہ انہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا منصب دیا جائے گا لیکن عمران خان نے انہیں اپنی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات کا عہدہ دیا ہے۔
وفاقی کابینہ میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور کے وزراء کی شمولیت پر بہت سے لوگوں کو اسی طرح تعجب ہوا ہے جیسے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے سردار عثمان بزدار کے انتخاب پر۔ اس سے زیادہ اس پر لوگوں کو حیرت ہے کہ عمران خان ان مصدقہ اطلاعات کے باوجود عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے پر ڈٹے رہے کہ 1998 میں تونسہ میں بلدیاتی انتخاب کے دوران چھ افراد کی ہلاکت کے الزام میں عثمان بزدار اور ان کے والد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ڈیرہ غازی خان کی عدالت نے ان دونوں کو قتل کا مجرم قرار دیا تھا لیکن بزدار خاندان نے 75لاکھ روپے کی دیت کی رقم ادا کر کے جرگہ کے ذریعہ معاملہ طے کر لیا تھا۔ عثمان بزدار 2001 میں مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے تھے اور 2013 کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اور حالیہ عام انتخابات سے قبل وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔ عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انتخاب کا یہ جواز یہ پیش کیا ہے کہ ان کا تعلق پس ماندہ قبائلی علاقہ سے ہے جہاں نہ پانی ہے اور نہ بجلی ہے اور وہ اس علاقہ کے مسائل سے واقف ہیں۔ لوگوں نے سوال کیا کہ اس علاقہ کی پس ماندگی کی ذمے داری کس کی ہے۔ برس ہا برس سے سردار بزدار کا خاندان اس علاقہ کی یونین میں اعلیٰ عہدوں پر رہا ہے۔ ان کا فرض تھا کہ وہ اس علاقے میں پانی اور بجلی اور سڑکوں کا انتظام کرتے۔
وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عثمان بزدار کے انتخاب کے بعد پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے صحافیوں سے کہا کہ عثمان بزدار غریب شخص ہیں اس لیے ان کی مدد کی جانی چاہیے۔ غالباً پرویز الٰہی کو علم نہیں کہ الیکشن کمیشن میں عثمان بزداررنے اپنے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں ان کے مطابق ان کے ڈھائی کروڑ روپے کے اثاثے ہیں، اور وہ تین ٹریکٹروں اور دو کاروں کے مالک ہیں۔
ماضی کے فوجی آمر کے ساتھ جو لوگ منسلک رہے ہیں ان سے ایک جمہوری ماحول میں نئے پاکستان کی تعمیر و ترقی کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ اور ان میں سے بہت سے بے داغ نہیں ہیں آخر عمران خان نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ایک طرف انہوں نے کرپشن کے خلاف اتنی زبردست مہم چلائی ہے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں دوسری جانب وہ اپنی کابینہ میں فوجی آمر کے دور کے مقتدر افراد کو اپنی کابینہ میں شامل کر رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو خطرہ ہے کہ عمران خان کی حکومت پر پرویز مشرف کا آسیب مسلط رہے گا۔ اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ عمران خان پرویز مشرف کی کرپشن کے احتساب کے لیے کوئی اقدام کر سکیں گے۔ پچھلے دنوں یہ انکشاف ہوا تھا کہ پرویز مشرف کے آف شور بینکوں میں دو ارب پندرہ کروڑ روپے جمع ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مشرف کے سات سے لے کر دس تک آف شور بینک اکاؤنٹس ہیں۔ ویسے بھی پرویز مشرف فوج کی اعانت اور مدد کے بل پر دبئی میں زندگی گزار رہے ہیں اس وقت ان کو غداری کے مقدمہ کا سامنا کرنے کے لیے کوئی واپس وطن نہیں لا سکتا خاص طور پر جب غداری کے مقدمہ میں پرویز مشرف کے وکیل، فروغ نسیم، عمران خان کی کابینہ میں وزیر قانون و انصاف ہیں اور ان کے علاوہ گیارہ وزیر پرویز مشرف کے دور میں وزیر رہ چکے ہیں یہ اقدام بہت مشکل ہوگا۔ ان حالات میں بڑا مشکل نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف، نئے پاکستان کے لیے موجودہ حالات کو یک سر بدلنے کا اپنا وعدہ پورا کر سکے۔
ترے وعدہ پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا