زندگی صرف باتوں سے زندگی نہیں بنتی۔ باتوں پر عمل بھی ضروری ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اب ہماری زندگی میں گہری باتیں کرنے والے بھی نایاب ہیں۔ پروفیسر کرار حسین کہا کرتے تھے کہ میں جب پاکستان کی جامعات میں شعبۂ اردو کے اساتذہ کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں اردو کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے۔ مگر اب یہ مسئلہ صرف ایک شعبہ حیات کا مسئلہ نہیں ہے۔ اب تو علماء، دانش وروں اور شاعروں، ادیبوں کا حال بھی پتلا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب دانش ور اور شاعر و ادیب اتھلی باتوں کے لیے وقف ہوگئے ہیں تو اداکاروں اور فلم ڈائریکٹروں سے کسی گہری بات کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ علم و ادب اور فکر و فلسفے کے سامنے فلم کے شعبے کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ بدقسمتی سے یہ صورت حال صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ زوال صبح و شام میر کے اس شعر کا ورد کررہا ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اس صورت حال میں امریکی ہفت روزے ٹائم کا 20 اگست 2018ء کا شمارہ پڑھ کر ہم کافی حیران ہوگئے۔
حیرانی کی وجہ ہالی ووڈ کے اداکار اور ڈائریکٹر ایتھن ہاک (Ethan Hawke) کا ایک صفحے پر مشتمل انٹرویو ہے۔ ویسے تو یہ پورا انٹرویو ہی اہم ہے مگر ایتھن ہاک نے اپنے انٹرویو میں دو تین باتیں ایسی کہی ہیں کہ اب ایسی باتیں دانش وروں تک کو نہیں سوجھتیں۔ ایتھن ہاک نے امریکا کے ایک اہم موسیقار بلیز (Blaze) پر فلم بنائی۔ اس حوالے سے انٹرویو میں ایتھن سے سوال کیا گیا۔
سوال:۔ ’’کیا بلیز پر کام کرتے ہوئے آپ کو اپنے اس خیال سے سابقہ درپیش ہوا کہ شہرت کی تمنا یا اس کے حصول کی کوششیں تخریبی یا تباہ کن ہوسکتی ہیں۔‘‘
جواب:۔ ’’بالکل۔ بلیز کی موسیقی کا بڑا حصہ بلیز کی اپنی بیوی سے محبت کا حاصل ہے۔ مگر بعد ازاں بلیز خود تخریبی رویے یا Self Destructive Behaviour کا شکار ہوگیا۔ یہ دونوں تجربات اچھا آرٹ تخلیق کرسکتے ہیں۔ مگر ایک آرٹ صحت بخش پانی یا آب حیات سے جنم لیتا ہے اور دوسری قسم کا آرٹ زہریلے کنوئیں سے برآمد ہوتا ہے۔ میں زندگی میں ایسے کئی انسانوں سے ملا ہوں جو مسرت کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔‘‘
شاعر اور ادیب ہونا ایک بات ہے اور تخلیق کے محرکات سے آگاہ ہونا دوسری بات۔ اتفاق سے تخلیق کاروں کی بڑی تعداد تخلیقی عمل اور اس کے محرکات سے آگاہ نہیں ہوتی۔ بہت سے تخلیق کار اس آگہی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ سوچتے ہیں ہم شعر کہتے ہیں، افسانہ لکھتے ہیں، تصویر بناتے ہیں یہ کافی ہے۔ تخلیق کے محرکات کے چکر میں کون پڑے۔ لیکن یہ ایک سطحی اور سرسری رویہ ہے تخلیقی عمل اور تخلیقی محرکات کا شعور تخلیق کو قوت مہیا کرتا ہے اور تخلیق کار کو خود تخریبی کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ بلاشبہ بڑا آرٹ تعلق یا Attachment سے بھی پیدا ہوتا ہے اور تعلق کی شکست ورغبت یا Detachment سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ محبت کا تجربہ بھی تخلیق کا سرچشمہ ہے اور صرف شہرت کی تمنا بھی انسان کو تخلیق پر مائل کرسکتی ہے۔ بدقسمتی سے شاعروں ادیبوں یا تخلیق کاروں میں ’’خبط عظمت‘‘ کی بیماری عام ہے چناں چہ اکثر لوگ اپنے تخلیقی محرکات سے وہ بڑائی وابستہ کرلیتے ہیں جو ان میں ہوتی ہی نہیں۔ مگر چوں کہ ان کا تخلیقی محرک چھوٹا ہوتا ہے اس لیے وہ محرک بہت جلد اپنی توانائی صرف کردیتا ہے اور تخلیق کار میں تخلیق کا سوتا خشک ہو جاتا ہے۔ اس کے تین نتائج برآمد ہوتے ہیں یا تو تخلیق کار چپ سادھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یا پھر وہ خود کو دہرانے لگتا ہے۔ پھر وہ خود تخریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ایتھن ہاک نے بالکل درست کہا ہے کہ آرٹ محبت سے بھی پیدا ہوتا ہے اور شہرت طلبی سے بھی مگر اس کا اصرار ہے کہ آرٹ کے ان دونوں نمونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک آرٹ آب حیات سے نمودار ہورہا ہے اور دوسرا آرٹ زہریلے کنوئیں سے جنم لے رہا ہے۔ یہ بات سو فی صد درست ہے مگر اب مغرب میں کیا مشرق میں بھی آرٹ کے سرچشمے کے سوال پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ آرٹ خود اہم ہے اس کے سرچشمے کی بحث غیر ضروری بلکہ فضول ہے۔ مگر یہ بحث نہ غیر ضروری ہے نہ فضول ہے۔ اس لیے کہ انسان مثبت اور منفی کے تصورات کو پھلانگ کر کھڑا نہیں ہوسکتا اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا آرٹ بھی زہر آلود اور تخریبی ہو جائے گا۔ اس کا اثر تخلیق کار پر بھی مرتب ہو گا اور معاشرے پر بھی۔ یہاں تک کہ پوری تہذیب اس سے متاثر ہوگی۔ ساحر لدھیانوی کا شعر ہے۔
دنیا نے تجربات و حوارث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا وہ لوٹا رہا ہوں میں
اس سے بھی پست درجے کی ذہنیت یہ ہے
وفا کرو گے وفا کریں گے جفا کرو گے جفا کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
یہ شعور اور اخلاقیات کی وہ سطح ہے جہاں تخلیق کار انسان ہونا کیا مردہ زمین ہونا بھی Qualify نہیں کرتا۔ انسان کے مقابلے پر مردہ کہلانے والی زمین کا ظرف یہ ہے کہ وہ بیج لیتی ہے اور اسے درخت بنا کر واپس کرتی ہے۔ ساحر کہہ رہا ہے کہ دنیا ہم پر تھوکے گی تو میں بھی دنیا پر تھوکوں گا۔ وہ مجھے محروم رکھے گی تو میں محرومی ہی واپس کروں گا۔ غالباً نظام الدین اولیاء کا قول ہے۔ تم کانٹوں کے جواب میں کانٹے رکھو گے تو پوری دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔ یہاں بھی ایک پانی حیات بخش ہے اور دوسرا پانی زہریلے کنوئیں سے آرہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تخلیق کار کو برا تجربہ ہوا ہے تو وہ اسے بیان نہیں کرے گا اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ جھوٹا آرٹ تخلیق کرے گا مگر تخلیق کار کی تہذیبی حس زندہ ہو تو منفی تجربات کو جذب کرے گا اور تجربے کی قلب ماہیت کرکے اسے بیان کرلے گا۔ اس کے بغیر وہ آرٹسٹ نہیں ہوگا اپنے تجربات کی قے کرنے والا انسان ہوگا۔ بد قسمتی سے مغرب ہی میں نہیں خود ہمارے معاشرے میں بھی تخلیق کے محرکات بدلے ہوئے عرصہ ہوچکا ہے۔ مگر تخلیق کے محرکات اور اس کے سرچشمے پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ایتھن ہاک نے اپنے مذکورہ جواب میں دوسری حیران کن بات یہ کہی ہے کہ وہ ایسے انسانوں سے ملے ہیں جو مسرت کو قبول نہیں کر پاتے۔
ایک جانب انسان اس بات پر شور مچا رہا ہے کہ مسرت نایاب ہوگئی ہے۔ زندگی میں غموں، دکھوں اور مصائب کے سوا کچھ بھی موجود نہیں۔ اس بات میں بڑی صداقت ہے۔ مغرب نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس میں مسرت واقعتاً کمیاب ہوگئی ہے۔ مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ انسان کو مسرت ملتی ہے تو وہ اسے قبول نہیں کرتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یاس پرستی اس حد تک انسانی مزاج کا حصہ بن گئی ہے کہ مسرت انسان کے ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی نظام کے لیے اجنبی ہوگئی ہے چناں چہ وہ کہیں ملتی بھی ہے تو انسان کا ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی معدہ اسے اُگل دیتا ہے۔ اسے ہضم نہیں کر پاتا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب نے جو دنیا تخلیق کی ہے۔ اس میں مسرت صرف طاقت، دولت یا شہرت سے وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ محبت کژ مسرت سے بڑی چیز کا تصور محال ہے بلکہ جدید انسان کے لیے محبت کوئی شے ہی نہیں۔ چناں چہ ہر جگہ طاقت، دولت یا شہرت کی محبت، محبت کی محبت پر غالب آجاتی ہے۔ یہ خود تخریبی یا Self Destructive رویہ نہیں تو اور کیا ہے؟
ایتھن ہاک نے ایک اہم بات یہ کہی ہے کہ انسان کو اپنی ناکامی کی طرح اپنی کامیابی کو بھی فراموش کر دینا چاہیے۔ اس بات کا ہر زمانے بالخصوص ہمارے عہد سے گہرا تعلق ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت ذہنی، علمی، نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے خام ہوتی ہے۔ اس کے لیے ناکامی تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے اوپر اعتبار کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اب وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ حالاں کہ ناکامی زندگی کا حصہ ہے۔ ناکام وہی ہوتا ہے جو کام کرتا ہے۔ جو کچھ نہیں کرتا وہ ناکام بھی نہیں ہوتا۔ بہرحال مسئلہ یہ ہے کہ ناکامی انسان کے ذہنی ارتقاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ کامیابی کو خود سے اور ناکامی کو قسمت، معاشرے یا نظام سے وابستہ کرتا ہے۔ چناں چہ کچھ لوگ ناکامی کو تو بھول بھی جاتے ہیں مگر ’’کامیابی‘‘ ان کے دل و دماغ اور اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ انا پرستی ہوتی۔ انسان کامیابی کو اپنی ذات سے وابستہ کرتا ہے تو اس کی انا کو تسکین ملتی ہے۔ مگر کامیابی کا نقصان یہ ہے کہ وہ ’’کامیابی‘‘ میں ’’پھنس‘‘ کر رہ جاتا ہے۔ چناں چہ وہ مزید کامیابیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک کامیابی اسے کہیں جانے ہی نہیں دیتی۔ کامیابی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو ایک قسم یا Type کا انسان بنا دیتی ہے۔ ایک شاعر ہلکی پھلکی رومانویت سے پہچانا جانے لگتا ہے تو وہ پھر کسی اور جذبے یا تجربے کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔ ایک افسانہ نگار کو جنس کے بیان میں لطف آنے لگتا ہے اور وہ اس دائرے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس دائرے سے باہر نہیں جا پاتا۔ اس مسئلے کا ہمارے زمانے سے یہ تعلق ہے کہ ہمارے عصر نے کامیابی کو خدا بنا لیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آدمی مقلد ہے اور کامیابی قائد ہے۔ کامیابی پہلے بھی اہم تھی مگر اب کامیابی کا اشتہار دینے والے اتنے ذرائع موجود ہیں جن کا کبھی تصور بھی محال تھا۔ چناں چہ کامیابی کو فراموش کرکے آگے بڑھنا یا اسے پھلانگنا آسان نہیں۔