نیا بلدیاتی نظام‘ پرانے چہروں پر رونق کا سامان

357

تبدیلی کیا ہے‘ ایک دھوکا ہے‘ لفظ ’’دھوکا‘‘ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے‘ ایک کرکٹر کو جوہری ملک کا وزیر اعظم بنا دینا کوئی معمولی کھیل نہیں ہے‘ اس نظام کے خالقوں کو بھی جلد پتا چل جائے گا کہ ان سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ ریاست ذمے داری سے چلتی ہے نمود و نمائش کے فیصلوں سے نہیں‘ ان چند ابتدائی دنوں میں جو کچھ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں کیا ہے اور عمران خان نے قائد ایوان بن جانے کے بعد بھی جس زبان میں بات کی ہے‘ ایسا لگ رہا ہے انہیں ابھی تک یقین نہیں آیا کہ وہ وزیر اعظم بنا دیے گئے ہیں پاکستان میں ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ہر آنے والا جانے والے کے نقص بیان کرتا ہے‘ گھر کی تعمیر کے لیے اگر کوئی مستری بھی تبدیل کردیا جائے تو وہ بھی پرانے مستری کو برا بھلا ہی کہے گا‘ لیکن معمولی اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ کرے گا وہی جو پہلے والا کر رہا تھا۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد ملک میں تبدیلی کا بہت شور اٹھا ہوا ہے‘ لیکن وہ چال ڈھال ہے‘ تبدیلی یہ ہوئی کہ اس بار اردو میں لکھا ہوا حلف بھی درست الفاظ کے ساتھ نہیں پڑھا جاسکا‘ اب یہ حلف ہوا ہے یا نہیں‘ تبدیلی اور اس کے ہمدرد اس پر خاموش ہیں‘ ایک خبر دی گئی کہ اب ملک میں بلدیاتی نظام تبدیل کیا جائے اسے باختیار بنایا جائے اور مالی امور دیے جائیں گے فیصلے کی بنیاد یہ ہے کہ گلی محلے کی سیاست‘ فٹ پاتھوں کی تعمیر پارلیمنٹیرین کا کام نہیں‘ یہ بلدیاتی اداروں کا کام ہے‘ بالکل درست بات ہے‘ مگر یہ کام ہوگا کیسے؟ وفاق یہ کام چاروں صوبوں میں کیسے کرے گا جب کہ یہ صوبائی معاملہ ہے‘ ہاں البتہ یہ کام پنجاب اور کے پی کے میں ہوسکتا ہے جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ بلوچستان اور سندھ میں یہ کیسے ہوگا؟ 2002ء میں جنرل مشرف بھی اس ملک میں نیا بلدیاتی نظام لائے تھے‘ اور کہا گیا تھا کہ یہ نظام سیاسی مداخلت سے آزاد ہوگا‘ لیکن کیا ہوا؟ کراچی‘ ملتان اور ایک آدھ شہر چھوڑ کر ہر ضلع ناظم‘ صوبائی وزیر اعلیٰ کی مرضی اور منشاء اور اس کے سیاسی دربار میں حاضری دینے کے بعد منتخب ہوا‘ ہر ناظم ضلع نے وہ کرپشن کی کہ مشرف نے ڈر کے مارے‘ بلدیاتی نظام کا آڈٹ ہی نہیں ہونے دیا‘ یہ نظام مشرف کے دوست تنویر نقوی کی نگرانی اور سربراہی میں ہوا تھا اور بعد میں اس وقت مشرف کے لاڈلے اور آج کل مسلم لیگ (ن) کے متوالے دانیال عزیز اس نظام کے نگران بنائے گئے مشرف کی ناک کے نیچے قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں کی پہلی ٹرم مکمل ہوئی‘ تو اگلی ٹرم میں مشرف اور قاف لیگ کے مل کر اپنے ناظم ضلع لگائے‘ آج تک ان کا آڈٹ نہیں ہوسکا۔ 2008ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے‘ مشرف کا نظام بھی چلتا بنا تو ہر صوبے میں ایک بار پھر نیا بلدیاتی نظام لایا گیا‘ پھر بھی یہی کچھ ہوا‘ اب پھر خبر دی گئی ہے کہ حکومت نیا بلدیاتی نظام لائے گی‘ اس بار پنجاب میں یہ کام تحریک انصاف اور قاف لیگ کی پارٹنر شپ میں ہوگا‘ یعنی پنجاب میں چودھریوں اور تحریک انصاف کے یوتھیوں میں بلدیاتی مقابلہ اور ملاکھڑا ہونے جارہا ہے اس ملاکھڑے میں تبدیلی مسل کر رہ جائے گی‘ بند بانٹ ہوگی‘ اور بندر ساری روٹی کھا جائے گا‘ بلیوں کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لانے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ نئے نظام کے تحت فنڈز اور اختیارات کی تقسیم نچلی سطح پر لائیں گے، بلدیاتی نظام سے بھی نچلی سطح اور کیا ہے؟ پاکستان کے کسی بھی صوبے میں کوئی بھی بلدیاتی نظام مستقل طور پر کام نہیں کرتا، ماضی میں مختلف قسم کے بلدیاتی نظاموں کے تجربات ہوتے رہے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں سٹی گورنمنٹ کا جو نظام متعارف کرایا اس کے تحت انہوں نے ملک بھر میں دوبار بلدیاتی اداروں کے انتخابات کرائے۔ جنرل پرویز مشرف اپنے اس نظام کا بہت زیادہ کریڈٹ بھی لیتے تھے اور اُن کا دعویٰ تھا کہ عالمی سطح پر بھی اس نظام کی تعریف و توصیف ہوئی ہے۔ 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنی اس لیے وہ بھی اس نظام کی اسٹیک ہولڈر بن گئی اور اس کے دور میں یہی نظام چلتا رہا پرویز مشرف کے دور میں دو بلدیاتی انتخابات تو ہوگئے لیکن 2009ء میں جو انتخابات ہونے والے تھے وہ اس لیے نہ ہوسکے کہ 2008ء میں وفاق اور صوبوں میں جو حکومتیں برسراقتدار آئیں، وہ کسی نہ کسی وجہ سے اس نظام کو جاری رکھنے کے حق میں نہ تھیں اور بعض تبدیلیاں چاہتی تھیں۔ سندھ حکومت نے اس سسٹم میں تبدیلیاں کردیں، پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا، دوسرے صوبوں نے بھی جو چاہا کیا کیوں کہ یہ بنیادی طور پر صوبائی معاملہ ہی تھا۔ صوبائی حکومتیں تو بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کرتی رہیں لیکن جب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آیا تو تمام صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کا پابند کردیا گیا تب کہیں جاکر انتخابات ہوئے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم سے کنٹونمنٹ بورڈوں کے انتخابات بھی ہوئے جہاں وائس چیئرمین کا عہدہ منتخب نمائندوں کے سپرد ہوا، اس طرح اسلام آباد کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ وفاق دارالحکومت میں بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے اور سی ڈی اے کے امور میں منتخب نمائندوں کا عمل دخل شروع ہوا۔
صوبوں نے اپنی اپنی ضرورتوں یا زیادہ بہتر الفاظ میں مصلحتوں کو پیشِ نظر رکھ کر پر انے نظاموں کا ایک ملغوبہ سا بنالیا، عدالت عظمیٰ اگر حکم جاری نہ کرتی تو شاید بلدیاتی اداروں کے بغیر ہی کام چلایا جاتا رہتا کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی تو قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں اس وقت بھی جو بلدیاتی نظام کام کررہا ہے وہ بھی ارکان اسمبلی کے انگوٹھے تلے دبا ہوا ہے ایم کیو ایم نے اپنے سات ووٹ عمران خان کو دینے کے لیے بذریعہ جہانگیر ترین ایک تحریری معاہدہ کیا ہے جس میں وفاقی حکومت سے ایم کیو ایم یہ مطالبات پورے کروائے گی، چونکہ تحریک انصاف کو وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ووٹوں کی ضرورت تھی اس لیے دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی ایسے معاہدے کیے گئے لیکن اگر ملک میں بلدیاتی نظام مضبوط ہو تو ہر چند برس یہ بات نہ سننی پڑے کہ نیا نظام لایا جائے گا پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لانے کے لیے چودھری پرویز الہٰی کے ذہن میں جو خاکہ ہے اس کی تفصیلات سامنے نہیں اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کوئی نیا نظام لانا چاہتے ہیں یا اب تک رائج نظاموں کی شکست و ریخت کرکے کوئی نیا نظام نئی ٹیکسال میں ڈھالنا چاہتے ہیں امکان تو یہی ہے کہ پنجاب میں اگر کوئی نیا بلدیا تی نظام آئے گا تو وہ عمران خان کے وژن کے مطابق ہی ہوگا لیکن دونوں جماعتوں میں ملاکھڑا بھی خوب ہوگا پنجاب میں کوئی نیا نظام لانے سے بہتر ہے کہ موجود نظام ہی کو اوورہال کرکے نئے دور کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرلیا جائے اگر چند سال یہی نظام کام کرے گا تو بہتر نتائج بھی دے گا لیکن اگر ’’ہرکہ آمد، عمارتِ نوساخت‘‘ کی روایت پر عمل کرنا ہے تو یہ نئے حکمرانوں کی مرضی ہے انہیں روک سکتا ہے۔