قصور نواز حکومت کا نہیں ہے

257

اسد عمر نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں کہا تھا ’’عمران خان ڈی چوک میں کھڑے ہوکر نوکریاں نہیں بانٹیں گے‘‘۔ ان کا یہ بیان اس تناظر میں درست تھا کہ قرض خواہ اگر دروازے پر کھڑے ہوں تو اپنے لوگوں میں ریوڑیاں نہیں بانٹی جاسکتیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اصل قرضے تو کجا ان کے سود کی ادائیگی کے لیے بھی حکومت پاکستان کے پاس بندوبست نہیں ہے۔ عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے عمران خان نے قوم سے جو وعدے کیے ہیں ان کی تعمیل کی صورت میں حکومتی اخراجات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ انہیں کاروباری طبقے کو بھی چھوٹ دینا پڑے گی۔ ان اخراجات کے لیے بھاری رقم کہاں سے آئے گی؟ کون ہمیں قرضہ دے گا؟۔ آمدنی کا حال یہ ہے کہ بائیس کروڑ میں سے صرف آٹھ لاکھ افراد بے دلی سے ٹیکس دیتے ہیں۔ ان حالات میں عمران خان کچھ کرشمہ کرکے دکھانا چاہتے ہیں جب کہ ان کے وزیر خزانہ کرشموں پر یقین رکھتے ہیں اور نہ کرشمہ سازی پر۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بیرونی قرضوں سے نجات حاصل نہیں کرلی جاتی یا ان کی جزوی ادائیگی کا بندوبست نہیں ہوجاتا عمران خان فلاحی ریاست کی سمت ایک قدم بھی آگے بڑھانے سے قاصر ہوں گے جب کہ بقول ان کے انہیں خزانہ بھی خالی ملا ہے۔ عمران خان کی حکومت پہلی حکومت نہیں ہے جس کو یہ گلہ ہے کہ اسے خزانہ خالی ملا ہے۔ نواز شریف نے آصف علی زرداری سے حکومت لی تو ان کا کہنابھی یہی تھا کہ خزانہ خالی اور قرضوں کا پہاڑ ہے جوان کے حصے میں آیا ہے۔ یہی بات عمران خان بھی دہرا رہے ہیں۔ میانوالی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’ملک چلانے کے لیے کوئی پیسہ نہیں ہے جب کہ قرضے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستان کے بیرونی قرضے13ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 27ہزار ارب روپے ہوگئے ہیں۔‘‘
اگلے چار برسوں یعنی سال 2022 تک پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 45 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ جس میں سے 26 ارب ڈالر قرض لینے کی ضرورت اگلے برس پڑے گی۔ تنہا مسلم لیگ ن کی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عالمی سطح پر حالت یہ ہے کہ جن ممالک کا شمار بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے وہ سب قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ جی سیون ممالک دنیا کی سب سے بڑی اور دولت مند معیشتیں ہیں لیکن وہ سب قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ جاپان کے قرضوں کا اس کی کل ملکی پیداور کے مقابلے میں تناسب 234.7 ہے۔ اٹلی کا 132.5، امریکا کا 105.4، کینیڈا کا 98.8، فرانس کا 96.5 برطانیہ کا 92.9 اور جرمنی کا 68 فی صد ہے۔ ہماری طرح ان ممالک کے بجٹ بھی خسارے کے بجٹ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی معیشتیں ہونے کے باوجود ان ممالک کے بجٹ خسارے کے بجٹ کیوں ہیں؟
اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام محاصل یا ریونیو کا ایسا نظام دینے سے قاصر ہے کہ ریاستیں خاطر خواہ ریونیوجمع کرسکیں۔ ریاستیں اتنی بڑی معیشتیں ہونے کے باوجود اس کے بقدر ریونیو جمع نہیں کر پاتیں جن سے ان کی ضروریات پوری ہوسکیں جس کے نتیجے میں وہ خسارے میں چلی جاتی ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ریاستیں قرض لیتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر ملکی قرضے ختم ہونا تو دور کی بات ہے کم ہونا بھی مشکل ہوتے ہیں اور بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت ریاست اور عوام کو دولت سے محروم کرکے نجی سیکٹر کو نوازتی ہے۔ توانائی اور معدنی وسائل جو بہت بڑی تعداد میں دولت پیدا کرنے کے انجن ہیں سرمایہ دارانہ معیشت ریاست کو ان سے محروم کرکے نجی ملکیت میں دے دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ کمپنیوں کا ڈھانچہ، اسٹاک شیئر کمپنیاں نجی سرمایہ داروں کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ کثیر دولت جمع کرسکیں تاکہ نجی سرمایہ کار ان شعبوں میں بھی صنعتیں چلاسکیں جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ ٹیلی کمیو نیکیشن، بھاری صنعتیں، ریلویز، ایوی ایشن اور شپنگ وغیرہ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریاست اور عوام دولت کے بہت بڑے بڑے ذرائع سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مجبوراً ریاست قرضہ لینے اور بھاری ٹیکس لگانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ ملک کی اقتصادی صورت حال کو عدم توازن کا شکار کیے ہوئے ہے۔ اس کی تین وجوہ بتائی جاتی ہیں۔ اول: ہماری درآمدات برآمدات سے زیادہ ہیں۔ ہم برآمدات کے مقابلے میں 38ارب ڈالر زیادہ درآمدات کرتے ہیں۔ دوم: بجٹ خسارہ جس کہ وجہ ملک کے رواں اخراجات ہیں۔ یعنی ملک کی آمدنی کم ہے لیکن حکومتوں نے اپنے اخراجات اتنے زیادہ بڑ ھا رکھے ہیں کہ سالانہ 2.2کھرب کا خسارہ ہوجاتا ہے۔ سوم: ان قومی اداروں کا بوجھ جن کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے حکومت کو ہر سال 1.1 کھرب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ خسارے کی ان تینوں وجوہ میں صرف رواں اخراجات ہیں جن میں فضول خرچیوں اور اللے تللوں پر اٹھنے والے شاہانہ اخراجات کو کم کرکے کسی حدتک رواں اخراجات میں ہونے والے خسارے کو کم کیا جاسکتا ہے۔ یونان اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں تک برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کا تعلق ہے اس کی وجہ بھی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے سرمایہ دار ادارے ہیں جو قرض دینے کے ساتھ ساتھ ایسی کڑی شرائط بھی عائد کردیتے ہیں جن سے بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ اور نہ جانے کن کن چیزوں کے دام بڑھ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اشیا کی پیداواری لاگت میں اتنا اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں نرخوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتیں۔ یوں بتدریج برآمدات کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جہاں تک رواں اخراجات میں ہونے والے خسارے کا تعلق ہے سرمایہ دار نظام اس کا حل بھی قرضوں میں تلاش کرتا ہے جن کے بوجھ تلے حکومتیں دبتی چلی جاتی ہیں۔ قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کو بہتر بنانے اور منافع بخش بنانے کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام ان کا حل بھی نج کاری میں تلاش کرتا ہے۔ یوں ریاست منافع بخش اداروں سے محروم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف کی فوجی حکومتیں ہوں یا بے نظیر، زرداری، نواز شریف اور عمران خان کی جمہوری حکومتیں یہ سب ایک ہی نظام کے تحت کام کرتی ہیں اور وہ ہے سرمایہ دارانہ نظام۔ جس کے بعد حکومتوں کی تبدیلی محض چہرے بدلنے کا عمل رہ جاتا ہے جو لاکھ دعووں کے باوجود ملک وقوم کی تقدیر بدلنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے اور ایک دوسرے سے مختلف پروگرام دینے کے باوجود یہ تمام جماعتیں ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ کرشماتی شخصیتیں ہوں یا مستقل مزاج، پاک دامن اور نیک نیت کوئی بھی معیشت کے معاملات کو سلجھانے میں کا میاب نہیں ہوتیں۔ خارجہ پا لیسی کے معاملات، امریکا، بھارت اور افغانستان کے بارے میں پالیسی مرتب کرنے میں ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ سیاسی حکومتوں کی راہ میں حائل ہے تو معاشی معاملات میں سرمایہ دارانہ نظام انہیں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔