پاک امریکا نیا تنازع

346

امریکا نے شر انگیزی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کی نئی حکومت کے دم لینے سے پہلے ہی نیا تنازع کھڑا کردیا۔ تنازع یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلی فون پر کیا بات ہوئی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے عمران خان سے گفتگو میں دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا ہے لیکن پاکستان کا کہناہے کہ امریکا کا بیان حقائق کے منافی ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ عمران خان اور پومپیوکے درمیان فون کال پر امریکی وزیر خارجہ نے عمران خان کو مبارک باد دی اور وزیر اعظم نے باہمی مفاد اور اعتماد پر مبنی دو طرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے پر زور دیا اور خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اصولاً تو نئی حکومت کی تشکیل پر رسمی باتیں ہی ہوتی ہیں گو کہ امریکا سے اصولوں کی پاسداری کی توقع عبث ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی ۔ امریکی ترجمان کا اصرار ہے کہ گفتگو میں دہشت گردی کا معاملہ اٹھانے کی بات ضرور ہوئی ہے اور امریکا نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر زور دیا ہے۔ تاہم پاکستان بھی اپنی بات پر قائم ہے اور دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کا بیان حقائق کے برعکس ہے وہ اپنے بیان کی تصحیح کرے۔ اس تنازع پر عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان نے بہت صحیح مشورہ دیا ہے کہ عمران خان سے امریکی وزیر خارجہ کی گفتگو کا ریکارڈ نکالا جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔ وزیر اعظم کو کی گئی ٹیلی فون کال کاریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ لیکن اے این پی کے ترجمان زاہد خان نے یہ شوشا بھی چھوڑ دیا ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ کسی کے دباؤ میں آ کر ٹیلی فون پر کی گئی گفتگو کی تردید کررہاہے ۔ لیکن یہ الزام اس لیے بے بنیاد ہے کہ امریکا نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے اور وہ برسوں سے یہی کہتا آرہا ہے۔ گزشتہ منگل کو بھی نائب وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ طالبان پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کے مزے لوٹ رہے ہیں ان کو نکالا جائے۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں اس کا موقف پرانا ہے اور سب جانتے ہیں کہ امریکا دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کو ملوث کرتا رہاہے تاکہ اس پر دباؤ قائم رہے۔ اگر امریکی وزیر خارجہ نے مذکورہ ٹیلی فونک گفتگو میں یہ بات نہیں کہی تو کچھ دن بعد کہہ دیں گے۔ مائیک پومپیو پاکستان آہی رہے ہیں اور وہ یہی بات منہ در منہ کہہ دیں گے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل پرمبارک باد دیتے ہوئے کوئی مطالبہ کرنا غیر اخلاقی اور غیر سفارتی عمل ہے۔ مگر ٹرمپ حکومت اخلاقیات کو خاطر میں کہاں لاتی ہے۔ خود امریکی صدر ٹرمپ غیر اخلاقی حرکتوں کے الزامات کی زد میں ہیں۔ ایسے مواقع پر امریکی صدور اپنے آپ کو بچانے کے لیے کوئی محاذ آرائی شروع کرتے رہے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ امریکا اس خطے میں کوئی نیا کھیل شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایک بار پھر پاکستان کا وزیر خارجہ بننے والے شاہ محمود قریشی نے بھی امریکی وزارت خارجہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت بدل گیا ہے، پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا ، امریکی حکام کو ہمارے تقاضے سمجھنا ہوں گے، پاک امریکا تعلقات ماضی سے مختلف ہیں ۔ لیکن پاکستان تو کبھی بھی مغرب یا امریکا کا محبوب نہیں رہا بلکہ بوجھ اٹھانے والے مزدور کا کردار ادا کرتا رہاہے۔ خدا کرے کہ اب پاکستان اپنے کندھوں سے یہ بوجھ اتار پھینکے اور خارجہ تعلقات میں بھی آزاد ہو جائے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ 7 برس بعد وزارت خارجہ میں آیا ہوں، وقت بہت بدل گیا ہے۔ جو دنیا چھوڑ کر گیا تھا آج وہ خاصی بدل چکی ہے۔ شاہ محمود قریشی 7 برس پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ تھے اور امریکا کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ریکارڈ میں کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے جسے یاد رکھا جائے۔ اب ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جہتیں مشرق کی جانب جارہی ہیں۔ ممکن ہے یہ بات بھی امریکا کو ناگوار ہو۔ پاکستان کو خراب ترین معیشت کا چیلنج بھی درپیش ہے اور یہ خطرہ بھی ہے کہ امریکا کوناراض کیا تو وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پر دباؤ ڈال کر پاکستان کو گرے لسٹ کے بعد بلیک لسٹ میں ڈلوا دے گا۔ آئی ایم ایف پر تو دباؤ ڈالا ہی جارہا ہے کہ پاکستان کو قرضے نہ دیے جائیں۔ چنانچہ نئی حکومت کی مجبوری بھی ہوگی کہ وہ امریکا کو ناراض نہ کرے۔ افغانستان کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’ ہم اگر امریکا کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں افغانستان میں اس کی ضروریات کو سمجھنا ہوگا اور امریکا کو اپنے تقاضے سمجھانے ہوں گے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات ماضی سے مختلف ہیں۔ قریشی صاحب اس بات کی وضاحت ضرور کریں کہ افغانستان میں امریکا کی ضروریات کیا ہیں جن کو سمجھنا ہوگا۔ کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ امریکا کی ضروریات افغانستان کو تباہ کرنا اور افغانوں کو اپنا غلام بنانا ہے۔ کیا 17سال میں امریکا یہ واضح نہیں کرچکا؟ اگر افغانستان میں اس کی ضروریات وہ ہیں جو پاکستان کنٹینروں کو راہداری فراہم کر کے پورا کرتا رہاہے اور امریکی فوجیوں کو اسلحہ اور سامان تعیش مہیا کرتا رہاہے تو یہ کام 7برس پہلے بھی ہو رہا تھا۔ رہے پاکستان کے تقاضے تو وہ امریکا سمجھنے پر تیار نہیں۔ اب یہی رہ گیا ہے کہ پاکستانی فوج بھی امریکا کی جنگ میں مزید شامل ہو جائے۔