’’ڈومور‘‘ کا مس فائر

312

 

 

امریکیوں کو پاکستان سے ڈومور کہنے کی عادت سی پڑ گئی ہے اور اس عادت کو پاکستانی حکمرانوں کے فدویانہ اور مودبانہ طرز عمل نے مزید پختہ کیا ہے۔ اگر پہلے ڈومور کا جواب ہی انکار میں دیا گیا ہوتا تو ڈومور کہنے کی عادت میں اس قدر پختگی اور تسلسل نہ ہوتا۔ اسی عادت کا اثر تھا کہ امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے وزیر اعظم عمران خان کو مبارکباد کا ٹیلی فون کیا اور اس دوران پاک امریکا تعلقات اور خطے کے مسائل اور معاملات پر بات ہوئی۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس ملاقات کی جو تفصیل جاری کی اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ اس بات کا ذکر بھی تھا کہ مائیک پومپیو نے عمران خان پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی کریں۔ یہ سیدھے سبھاؤ ’’ڈومور‘‘ ہی تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اس بیان کو مسترد کیا اور کہا کہ دونوں راہنماؤں کی گفتگو میں ایسا کوئی جملہ نہیں تھا۔ جواب الجواب کے طور پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے کہا کہ دونوں راہنماؤں کے درمیان اچھی گفتگو ہوئی۔ یہ ایک اچھی کال تھی۔ پاکستان امریکا کا اہم شراکت دار ہے مگر وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بیان کو مسترد کیا۔ اب اس محاذ پر خاموشی ہے مگر یہ خاموشی بھی بتارہی ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ اس طرح پہلے مرحلے ہی میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک سفارتی تنازع پیدا ہوا۔
مائیک پومپیو اگلے ماہ کے اوائل میں پاکستان کا دورہ بھی کر نے والے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات اس شیڈول کا حصہ ہے۔ اس مرحلے پر دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تکرار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدمزگی کے سائے اب اس ملاقات کے اوپر بھی منڈلاتے رہیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اب چراغ سحری کی مانند ٹمٹما رہے ہیں اور اس پر مستزاد اس نوعیت کی توتکار ہے۔ اس سے دونوں کے تعلقات کا رہا سہا بھرم بھی ختم ہو سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ پاکستان امریکا کے اقدامات کو اور امریکا پاکستان کے فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ افغانستان اور بھارت ان تعلقات کی خرابی کی بنیاد ہیں۔ ماضی میں امریکا سول ملٹری خلیج کا فائدہ اُٹھا کر حکومتوں کو اپنے موقف کی صداقت اور حمایت کے لیے استعمال کرتا تھا۔ سول حکومتیں بھی امریکا کے دام ہمرنگ کا شکار ہو کر امریکی پچ پر کھیلنے لگتی تھیں جس سے ملک میں سول ملٹری کشمکش شروع ہو جاتی تھی۔ تاریخ کے صفحات پر میمو گیٹ سے ڈان لیکس تک یہ کہانیاں جابجا ملتی ہیں۔ اس بار سول ملٹری کشمکش اُبھرنے کا امکان بہت کم ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہی ہے جس طرح ملکی اسٹیبلشمنٹ امریکا کو ناگوار ہے اسی طرح سویلین چہرہ بھی زیادہ پسندیدہ نہیں پھر عمران خان نے ملک کے حساس دفاعی مسائل کو بنیاد بنا کر انتخاب نہیں لڑا بلکہ ان کا ایجنڈا ملکی کی داخلی صورت حال تھی۔ ان کی پہلی ترجیح بھی داخلی طور پر کچھ مختلف کرنا ہے۔ گوکہ بیرونی میڈیا میں یہ سوال اُٹھنا شروع ہوگیا ہے کہ عمران خان باہر والوں کی فرمائشوں اور اپنی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورتوں اور پاکستان کے قومی تقاضوں کے درمیان کس طرح توازن قائم رکھ سکتے ہیں؟۔ عمومی خیال یہی ہے کہ عمران خان محمد خان جونیجو کی طرح ان سوالات اور تبصروں سے گھبرا کر طاقت کے ساتھ سینگ پھنسا کر اپنی تبدیلی کا ابارشن نہیں کریں گے۔
انتخابات سے بہت پہلے ہی امریکیوں نے پاکستان آکر کہہ دیا تھا کہ فلاں شخص کا وزیر اعظم رہنا ہمارے مفاد میں ہے۔ اسے موقع ملنا چاہیے۔ امریکا کی یہ حمایت اس شخص کے لیے ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ والا معاملہ ثابت ہوا۔ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے سے روکنا امریکیوں کی ترجیح تھی اور اس کے لیے امریکا کا پاکستان کے لیے آزمودہ ’’حسین حقانی نیٹ ورک‘‘ پوری قوت سے استعمال ہوتا رہا مگر امریکا اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس پس منظر میں یہ امکان کم ہے کہ امریکا ماضی کی طرح سول ملٹری کشمکش شروع کرانے میں کامیاب ہو گا۔ اس لیے امریکا کو عمران خان کی صورت میں ایک بدلے ہوئے پاکستانی حکمران کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ وہ امریکا کی سفارش سے آئے ہیں نہ ان کی آمد میں امریکا کی رضا مندی کا عمل دخل ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کے لیے ان کے جذبات ناپسندیدگی کی حدوں تک چلے گئے تھے۔ بدلے ہوئے ماحول میں امریکا کو زیادہ محتاط ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
امریکا کا پہلا ڈومور ہی مس فائر ثابت ہوا۔ مائیک پومپیو نے ڈومور کہا ہو یا نہیں مگر پاکستان نے اس بات کو برسرعام مسترد کرکے یہ پیغام دیا کہ ڈومور کی کہانی اب ماضی کی طرح چلنے والی نہیں۔ امریکا کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں برابری کی عادت پیدا کرنا ہوگی وگرنہ اعتماد کا بحران ٹویٹ در ٹویٹ اور بیان در بیان بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اپنے ڈومور کو مس فائر اور غیر موثر بنانے میں سب سے زیادہ حصہ امریکا کے جنگ بازوں اور جنگ پسندوں کا ہے جنہوں نے پاکستان کو سزا دینے کے لیے امداد روکنے، فوجی تعاون محدود کر دینے، اپنے شراکت دار کو اعتماد میں لیے بغیر جاسوسی اور اطلاع کا اپنا الگ نظام تشکیل دینے جیسے روایتی اور غیر دوستانہ اقدامات کیے۔ جس سے پاکستان سے امریکی اثر رسوخ کم ہوتا چلا گیا اور معاملات اس نہج پر چل کر بگاڑ کی انتہا تک جا پہنچے۔