قیامت سے قیادت تک

273

 

 

صاحبو! قیامت کے دن اللہ کو منہ دکھانا ہے، اختلاف اپنی جگہ لیکن جب سے عمران خان کی حلف برداری کی تقریب دیکھی ہے ہم اس کے اثر میں ہیں۔ بیگم پارلر سے تیار ہوکر آئیں ہمارے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ’’بیگم! آج تو قیامت لگ رہی ہو۔‘‘حلف اٹھاتے وقت عمران خان بہت جوان لگ رہے تھے۔ بیوٹی پارلر کے بعد ایوان اقتدار وہ جگہ ہے جو انسان کو حسین اور جوان بنا دیتی ہے۔ حلف نامہ غلط پڑھنے کا جہاں تک تعلق ہے اس میں خان صاحب کا دوش نہیں۔ حلف نامے کی عبارت قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے ہونا چاہیے تھی۔ خان صاحب کی پریکٹس یہی ہے۔ عمران خان کی جدوجہد میں نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہے۔ جب تک کامیابی نہ مل جائے شادی کرتے رہیں۔ بہتر ہے چھوٹے قد کی عورت سے شادی کریں۔ مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی بہتر ہے جب 22رنز سے ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان اپنی 22سالہ جدوجہد کے نتیجے میں 22 کروڑ پاکستانیوں کے 22ویں وزیراعظم کا حلف اٹھا رہے تھے تب بلاول اللہ کا شکر ادا کررہے تھے کہ پرائم منسٹر نہیں بنے ورنہ ’’اتنا خوفناک اردو کون بولتی۔‘‘ اس موقع پر زرداری صاحب کی مسکراہٹ دیدنی تھی۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ اگر عمران خان کی پیرنی بیوی نے موبائل پر ’’فیس لاک‘‘ لگا رکھا ہوگا تو مکمل باپردہ حالت میں وہ اپنا موبائل کیسے استعمال کرسکیں گی۔ ایک خاتون صبح کے وقت میک اپ کررہی تھیں۔ کہیں جانا بھی نہیں تھا۔ شوہر نے بار بار وجہ پوچھی تو بالآخر غصے سے بولی ’’کل میک اپ کے بعد موبائل پر فیس لاک لگایا تھا صبح سے کوشش کررہی ہوں موبائل آن نہیں ہورہا۔ اس لیے۔۔۔‘‘
ہماری سیاست میں بیوی کا کردار بڑھتا جارہا ہے۔ کوئی مری ہوئی بیوی کے نام پر صدر بن گیا۔ کوئی بیمار بیوی کا بہانہ کرکے عدالتوں میں پیشی سے بچتا رہا اور کوئی بیوی کے بتائے ہوئے وظیفے جپ کر وزیراعظم بن گیا۔ پیرنی ہونے کا ایک فائدہ ہے۔ غلطی پیرنی کی ہو تب بھی قصور غلطی کا ہوتا ہے۔ عمران خان کے کمال میں پیرنی کا کوئی کردار ہو تو ہو نواز شریف کے زوال میں ان کے وظیفوں کا کوئی دخل نہیں۔ نواز شریف کا وقت ہی برا چل رہا ہے۔ اگر میز پر چائے کے پانچ کپ رکھے ہوں تو مکھی اسی کپ میں آکر گرے گی جو نواز شریف کے سامنے ہو۔ بچے کبھی کہاکرتے تھے ’’مونگ پھلی میں دانہ نہیں تم ہمارے نانا نہیں۔‘‘ جس طرح بچے اتنا بڑا رشتہ اس آسانی سے توڑ دیا کرتے تھے۔ ابن الوقت لوگ بھی برا وقت آنے پر ہر تعلق اتنی ہی آسانی سے توڑ دیتے ہیں۔ نواز شریف کے بعد اگر کسی پر برا وقت آتے دیکھا تو وہ ڈاکٹر عمران علی شاہ ہیں۔ الیکشن مہم میں چار بندوق بردار گارڈز کی معیت میں ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی سے نکل کر وہ ڈاکٹر شاہ جو ٹکے ٹکے کے لوگوں کو یہ کہتے نہیں تھکتا تھا ’’میں آپ کا نوکر ہوں‘‘ پرائی آگ میں ایسے کودا کہ نام اور عزت سب گنوا بیٹھا۔ جس نے اس موقع پر ویڈیو بنائی ثابت کردیا سمجھ دار لوگ لڑائی میں نہیں پڑتے، بس تیلی دکھا کر کنارے ہوجاتے ہیں۔
عوام کو عمران خان سے جو لگاؤ ہے ووٹ کی صورت لوگوں نے اس کا اظہارکردیا۔ عمران خان کے قوم سے خطاب نے توقعات کا جو ٹھاٹھیں مارتا سمندر تخلیق کیا ہے لوگ دست بدعا ہیں کہ اللہ کرے وہ ان توقعات پر پورے اتریں۔ اس ملک کے عوام اور حکمرانوں کا تعلق بس میں برابر برابر بیٹھے بابو صاحب اور ایک اجنبی جیسا رہا ہے۔ کنڈکٹر نے بابو صاحب سے کرایہ مانگا۔ جیسے ہی ان کا ہاتھ کرایہ نکالنے کے لیے جیب کی طرف بڑھا اجنبی نے ہاتھ پکڑلیا اور بولے آپ کی شکل میرے بڑے بھائی سے ملتی ہے ایک مدت ہوگئی ان کو دیکھے ہوئے آپ کا کرایہ ادا کرتے ہوئے مجھے ایسا لگے گا جیسے بڑے بھائی واپس آکر میرے برابر بیٹھ گئے ہیں۔ برائے مہربانی اپنا کرایہ مجھے دینے دیجیے۔ بابو صاحب نے بہت کوشش کی لیکن اجنبی نے ان کا ہاتھ نہ چھوڑا۔ کنڈکٹر کو کرایہ ادا کرنے کے بعد اجنبی اگلے بس اسٹاپ پر اتر گیا۔ دو تین اسٹاپ بعد بابو صاحب بھی بس سے اترگئے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے کسی کام سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اجنبی نے ان کی جیب کاٹ لی تھی۔ اگلے دن بابو صاحب بازار سے گزر رہے تھے کہ انہیں جیب کترا نظر آگیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا۔ جیب کترا روتے روتے ان کے گلے لگ گیا بابو صاحب مجھے معاف کردو۔ آپ کی جیب کاٹ کر گھر پہنچا تو میری لاڈلی بیٹی مرگئی۔ اس کی میت کا سامان لینے بازار آیا ہوں۔ بابو صاحب نے جیب کترے کو معاف کر دیا۔ جیب کترا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد بابو صاحب کو پتا چلا کہ گلے ملتے ہوئے جیب کترا ایک مرتبہ پھر ان کی جیب صاف کرگیا ہے۔ چند دن بعد بابو صاحب کسی کام سے جا رہے تھے کہ جیب کترے نے ان کا راستہ روک لیا۔ بابو صاحب موٹر سائیکل سے اترے تو جیب کترے نے ان کے پاؤں پکڑ لیے ’’بابو صاحب بس آخری مرتبہ مجھے معاف کردیجیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے جیب کترے نے ان کے سارے پیسے بھی واپس کردیے۔ ان کو کولڈ ڈرنک کی دکان پر لے گیا۔ بوتل ان کے ہاتھ میں تھمائی اور دکاندار کو پیسے دے کر چلا گیا۔ بابو صاحب واپس آئے تو ان کی موٹر سائیکل غائب تھی۔ پاکستان کے حکمرانو کے بھی یہی طیور رہے ہیں۔ ہر حکمران بہانے بنا کر عوام کو لوٹتا رہا۔ کبھی ہاتھ پکڑ کر، کبھی گلے لگا کر اور کبھی میٹھے بول اور شربت پلاکر۔
وزیراعظم عمران خان نے کفایت شعاری کی جو مہم شروع کی ہے ہمیں ڈر ہے کہیں وہ یہ حکم نہ جاری کردیں کہ سب ایک آنکھ سے دیکھا کریں۔ جب ایک آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے تو دوسری آنکھ کے استعمال کی فضول خرچی کی کیا ضرورت؟ کفایت شعاری کی جس راہ پر وہ چل پڑے ہیں اس کے پیش نظر لگتا ہے وہ مہمانوں کو چائے کا کپ بھی پلادیں تو غنیمت ہے۔ ہمارا مشورہ ہے عمران مہمانوں کو گرین ٹی پیش کریں۔ اس کا پہلا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ میزبان امیر لگتا ہے۔ دوسرے دودھ کا خرچہ بچتا ہے۔ تیسرے بسکٹ ساتھ نہیں رکھنے پڑتے اور چوتھے مہمان کے جلد آنے کا دور دور تک امکان نہیں رہتا۔ حالیہ الیکشن میں یہ خبر بڑی حیرت کے ساتھ پڑھی گئی تھی کہ ایک چائے والا بھی اسمبلی میں پہنچ گیا ہے۔ یقین آگیا چائے تمام مشروبات کی مرشد ہے۔ بعد میں خبر کا مزہ اس وقت کرکرا ہوگیا جب پتا چلا کہ چائے والا کروڑ پتی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک چائے والا وائرل ہوا تھا۔ وہ ظالم اتنا خوبصورت تھا کہ ڈراموں میں ہیروئنوں نے اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ہماری طرف کون دیکھے گا۔
عمران خان اگلے پانچ برسوں میں غربت کم کرنے میں کا میاب ہوگئے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ دنیا میں سب سے بھاری چیز خالی جیب ہوتی ہے چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیب جتنی بھاری ہو انسان اتنا ہی ہواؤں میں اڑتا ہے۔ یہاں کشش ثقل کے اصول جواب دے دیتے ہیں۔ ماں کے معاملے میں میتھ کے حساب کتاب رکھے رہ جاتے ہیں۔ ماں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہو تب بھی اولاد کے ایک روٹی مانگنے پر دو روٹیاں لے کر آتی ہے۔ عید اور غربت ایک بڑا امتحان ہے۔ خالی جیب عید بھی اس طرح ختم ہوجاتی ہے جیسے ایم کیو ایم ختم ہوئی ہے۔ ایک ن لیگی سے ہم نے پوچھا عید کا جانور خرید لیا؟ بولا ’’تو عمران خان نے کے پی کے میں کیا کرلیا۔‘‘