۔26اگست 1941 سے 2018 تک

277

 

 

جاوید احمد 26 اگست 1941 کو جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی تھی، اس لیے ہر سال اسی تاریخ کو جماعت اسلامی اپنا یوم تاسیس مناتی ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ 77برس کے اس سفر میں ہم اپنی منزل کے حصول میں کہاں تک پہنچے ہیں۔ بیسویں صدی کے تقریباً وسط میں جب مولانا مودودی نے اس تحریک کی بنیاد رکھی تو اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے مجموعی حالات کیا تھے، بالخصوص سیاسی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی کیفیت کیسی تھی اور تاریخ کے اس موڑ پر ایسی کسی تحریک کی ضرورت تھی جسے مولانا مودودی نے سمجھا اور پھر پورا کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مسلمانوں کو ایک ایسا دھچکہ لگا جس نے انہیں غم و غصہ کے سمندر میں ڈبو دیا۔ یہ حادثہ ترک خلافت کا زوال تھا یہ کیوں ہوا کیسے ہوا اس کی ایک الگ داستان ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت پہلے عرب اور عجم کا تعصب پیدا کیا گیا تاکہ مسلمانوں کے اتحاد کو کمزور کیا جائے۔ پھر شاہ فاروق کے پاس یہودیوں نے اپنا ایک نمائندہ بھیجا کہ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کے لیے زمین کا ٹکڑا دیا جائے شاہ فاروق نے سختی سے نہ صرف انکار کیا بلکہ اس پر اپنی خفگی کا اظہار بھی کیا۔ اس موقع پر صہیونیت کی طرف سے شاہ فاروق کو دھمکی بھی دی گئی پھر جب یہودیوں اور عیسائیوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور شاہ فاروق کو معزول کیا گیا تو یہ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جو شخص یہودیوں کے لیے فلسطین کی زمین کے حصول کا مطالبہ لے کر گیا تھا وہی ان کی معزولی کا پروانہ لے کر گیا۔
یہ چند اشارات ہیں ورنہ یہ ہمارا موضوع نہیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ سقوط خلافت کے مسلمانوں اور بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے، پوری دنیا کے مسلمانوں نے تو اسے ایک سانحہ سمجھا اور غم کی ایک کیفیت کا شکار ہوئے کہ اس میں ہمارے اپنے ہی کچھ لوگوں کی عاقبت نااندیشی کا دخل تھا۔ لیکن اس سقوط خلافت کا سب سے زیادہ اثر برصغیر کے مسلمانوں نے لیا جو پہلے ہی انگریزوں کی غلامی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ چوں کہ خلافت ان کی عقیدت و محبت کا مرکز و محور تھا اس لیے اس کو انہوں نے اپنا سیاسی اخلاقی اور روحانی نقصان تصور کیا انگریزوں کے خلاف ان کی نفرت میں اور اضافہ ہو گیا۔ چناں چہ برصغیر میں تحریک خلافت کا آغاز ہوا مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر دونوں بھائی اس میں پیش پیش تھے اور ان کی والدہ بی اماں کی نظم کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا کہ ’’بیٹا جان خلافت پہ دینا‘‘ اس میں ایک کام اور ہوا جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ اس تحریک خلافت کا سربراہ ایک ہندو گاندھی جی کو بنایا گیا۔ اس تحریک خلافت میں مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ ان کے شدید جذبات اس تحریک میں شامل تھے لوگوں نے اپنے گھر بار بیچ کر اس میں لگا دیا۔
تحریک خلافت کی قیادت ایک ہندو کو دینے کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اگر ہم نے صرف اپنے دائرے میں رہ کر یعنی صرف مسلمانوں کی حد تک تحریک چلائی تو انگریز سرکار کوئی سازش کرکے اس تحریک کو ہندو مسلم فساد میں تبدیل نہ کردے جب کہ کانگریس کی قیادتیں سقوط خلافت کے خلاف بیانات دے کر مسلمانوں کے جذبات کی پہلے ہی سے تائید کررہی تھیں۔ دوسری طرف ہندو قیادت کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اگر یہ تحریک خلافت ناکام ہو گئی تو مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف نفرت اور غصہ اور شدید ہو جائے گا اور چوں کہ مسلمان ایک جان دینے والی قوم ہے اس لیے ہم ان جذبات کو انگریزوں سے آزادی کے لیے آسانی سے استعمال کر سکیں گے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا یہ تحریک ناکام ہو گئی۔ جب تحریک خلافت ناکام ہوگئی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کی تحریک زور پکڑ گئی پہلے تو یہ پوری تحریک کانگریس چلارہی تھی مسلمانوں کے تمام لیڈران بھی کانگریس کے ساتھ تھے۔ ایک عارضی حکومت بنائی گئی اور اس میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ جو متعصبانہ رویہ اختیار کیا اس نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ابھی سے ان ہندوؤں کا یہ حال تو جب ہندوستان آزاد ہو جائے گا تو اس وقت تو یہ ہمیں غلام بنا کر رکھیں گے اور آج آپ دیکھ لیں بھارت میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ رہے ہیں یہاں سے پھر مسلمانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کا ایک الگ خطہ ہونا چاہیے اور پھر تحریک پاکستان کا بڑے جوش خروش سے آغاز ہوا پھر نعرے لگے کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ دستور ریاست کیا ہوگا محمد الرسول اللہ قائد اعظم کی قیادت میں یہ تحریک آگے بڑھتی ہے اسلام کے نام پر زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کی جدوجہد مسلسل آگے بڑھتی رہی۔
دوسری طرف مولانا مودودی نے پہلے الجہاد فی الاسلام لکھ کر اسلام میں جہاد کے تصور کو واضح کیا پھر ترجمان القران کے ذریعے اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے آپ کا مرکزی نقطہ نظر یہ تھا کہ اسلام ایک زندہ جاوید دین ہی نہیں بلکہ یہ ایک تحریک ہے اور یہ دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے عام مسلمان اپنے اس مقصد اور نصب العین کو بھولے ہوئے ہیں اس امت مسلمہ کا مقصد بعثت ہی یہ تھا انسانوں پر سے انسانوں کی خدائی ختم کرکے انہیں خدا کی بندگی کے دائرے میں لایا جائے ادھر تحریک پاکستان زوروں پر تھی دوسری طرف بعض مسلمان مذہبی و سیاسی رہنما کانگریس کی آواز میں آواز ملا کر یہ کہہ رہے تھے کہ ہندو مسلم ایک قوم ہیں قومیں وطن سے بنتی ہیں جب کہ مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ پیش کیا کہ ہندو مسلم ایک نہیں دو قوم ہیں مولانا مودودی نے اس موقع پر مسئلہ قومیت لکھ کر مسلم لیگ کی نظریاتی جدوجہد کو اپنے دلائل کے ذریعے قوت فراہم کی مولانا مودودی کا کہنا تھا کہ قومیں وطن سے نہیں نظریے سے بنتی ہے۔ ترجمان القران میں اپنی تحریروں کے توسط سے مولانا نے ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا جو اس مقصد اور نصب العین کی جدوجہد کرے اور اس نظریے کے مطابق مردان کار تیار کرے۔ دوسری طرف مولانا یہ دیکھ رہے تھے مسلم لیگ میں عوام اسلام کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر جمع تو ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نئی مملکت میں اسلامی نظام نافذ بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی مولانا نے پورے برصغیر میں ترجمان کے ذریعے سے لوگوں کو پکارا۔
26اگست 1941 کو 75افراد اکھٹا ہوئے اور باہمی مشاورت سے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی اس کا دستور بنایا دستور کے مطابق امیر جماعت کا انتخاب ہوا مولانا مودودی پہلے امیر منتخب ہوئے ایک موقع پر کسی نے یہ سوال کیا کہ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت کیوں اختیار نہیں کی اور الگ سے اپنی جماعت کیوں بنائی مولانا نے جواب دیا کہ جماعت اسلامی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے نظریاتی کارکن تیار کریں کہ اگر مسلم لیگ پاکستان حاصل کرلے تو اسلامی نظام کے لیے اس کو ہر شعبہ میں اس نظریے کے مطابق مردان کار مل جائے اور دوسر ا مقصد یہ ہے کہ اگر پاکستان میں مسلم لیگ اسلام نافذ کرنے میں ناکام ہو جائے تو جماعت اسلامی ایک متبادل چوائس ہو سکتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی نے اس ملک میں کیا کامیابیاں حاصل کی ہیں اس تناظر میں یہ ایک دلچسپ سوال ہے جماعت ہر الیکشن میں ناکام ہو جاتی ہے ابھی پچھلے ماہ ملک میں جو انتخابات ہوئے ہیں اس میں جماعت کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ مولانا مودودی نے شروع ہی سے دو چیزوں پر بہت زور دیا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی ایک بحالی جمہوریت اور دوسرے اسلامی آئین کی تیاری۔ مولانا نے ملک کے بائیس نامور علماء کے تعاون سے ایک قرارداد مقاصد تیار کی جو آج ہمارے آئین کا دیباچہ ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اس ملک میں جمہوریت ہو گی تو اسلامی انقلاب کی منزل قریب آسکتی ہے آج ہمارے ملک کا آئین ایک اسلامی آئین ہے اگر صرف آئین ہی کو ملک میں اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ کردیا جائے تو ساٹھ فی صد اسلامی نظام ازخود نافذ ہو جائے گا پچھلے پندرہ برسوں سے انتخابات کے ذریعے منتقلی اقتدار کی روایت بڑی حوصلہ افزاء رہی ہے ہمارے بتیس سال اگر مارشل لا میں ضائع نہ ہوتے تو ہم کافی آگے جاچکے ہوتے ایک موقع پر ایوب خان نے مولانا مودودی سے کہا کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ مولویوں کا سیاست سے کیا تعلق ہے مولانا نے جواب دیا کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ فوجیوں کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔ آج کے حکمران اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ جیسی ریاست قائم کریں گے تو جماعت اسلامی کی کامیابی ہے اس لیے جماعت انتخابات میں ناکام ہونے کے باوجود بھی نظریاتی اعتبار سے اس ملک کی کامیاب جماعت ہے۔