سرسید اور ان کا تصورِ فطرت

920

 

 

سرسید اپنی تحریروں میں لفظ فطرت کا ’’ورد‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اہل ایمان اللہ اکبر کا ورد کرتے ہیں۔ اللہ اکبر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ بڑا ہے۔ سرسید فطرت کے ساتھ یہ تو نہیں کہتے کہ فطرت سب سے بڑی ہے مگر وہ ہر جگہ فطرت کی بڑائی، فوقیت اور بالادستی ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں لفظ فطرت کے ساتھ ایک طرح کی روحانیت، مذہبیت اور تقدیس وابستہ نظر آتی ہے۔ سرسید کے یہاں لفظ فطرت اتنا اہم ہے کہ اگر آپ اس لفظ کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھ لیں تو سرسید کی شخصیت اور فکر کی عمارت کا بڑا حصہ آپ کی تفہیم سے پیدا ہونے والے زلزلے سے خود ہی منہدم ہوجائے گا۔ اتفاق محض اتفاق سے اردو میں سرسید پر ایک بہت ہی بڑا علمی اور تحقیقی کام پہلے سے موجود ہے۔ یہ کام دراصل ڈاکٹر ظفر حسن کا پی ایچ ڈی کا وہ مقالہ ہے جو انہوں نے اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری کی نگرانی میں تحریر کیا۔ ہمیں ڈاکٹر ظفر حسن سے کراچی میں دوبار ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان ملاقاتوں سے ہمیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب عسکری صاحب کے شاگرد ضرور رہے ہیں مگر وہ صرف ایک تاجر ہیں اور ان کی علمی لیاقت تقریباً صفر ہے۔ اس بات کا ذکر ہم نے اردو کے معروف نقاد اور شاعر جمال پانی پتی سے کیا تو وہ مسکرائے۔ کہنے لگے تمہارا خیال درست ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسن کو بلاشبہ اپنے مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی ہے مگر یہ پورا مقالہ اصل میں عسکری صاحب ہی کا ہے۔ اس مقالے کا عنوان ہے سرسید اور حال کا نظریہ فطرت۔ یہ مقالہ پہلی بار 1990ء میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ کتاب کی ضخامت 376 صفحات ہے۔ یہ مقالہ 188 کتب کا نچوڑ ہے، ان میں 107 کتابیں اردو، فارسی اور عربی کی ہیں اور 81 کتابیں انگریزی زبان کی ہیں۔ ہم یہ بات پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور اسے دہراتے ہیں کہ اس موضوع پر اس سے اچھی کتاب اردو کیا انگریزی میں بھی نہیں لکھی گئی۔
اس کتاب میں عسکری صاحب نے کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے برصغیر پر مغرب کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سرسید نے فطرت کا تصور مغرب سے مستعاد کیوں لیا۔ انہوں نے اس تصور کو کن معنوں میں استعمال کیا لیکن عسکری صاحب صرف اتنی سی کوشش کرکے نہیں رہ گئے۔ بلکہ انہوں نے دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کو کھنگال ڈالا اور بتایا کہ فطرت کا تصور یونانی فلسفے میں کہاں کہاں کس طرح ظاہر ہوا ہے۔ ہندو تہذیب میں اس کا کیا مفہوم رہا ہے، عیسائی تہذیب میں اس لفظ کو کن معنوں میں برتا گیا ہے، خود مغرب میں صدی بہ صدی اس لفظ کو کن معنوں میں بروئے کار لایا گیا ہے، اسلامی تہذیب اس لفظ کو کن حوالوں سے استعمال کرتی رہی ہے۔ اس اعتبار سے عسکری صاحب نے لفظ فطرت کی پوری فلسفیانہ، مذہبی اور عالمی تاریخ کو ہمارے سامنے لا کر رکھ دیا ہے اور بتایا ہے کہ سرسید اور ان کے شاگرد رشید حالی بے مثال ’’سمجھی‘‘ جانے والی علمیت کی ’’اوقات‘‘ کیا ہے۔ کہنے کو سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت ایک کتاب ہے لیکن دراصل یہ کتاب نہیں سرسید اور حالی کی فکر کے اساسی، بنیادی اور اہم ترین تصور کی قبر ہے۔ ایسی قبر جس سے ساری دنیا مل کر بھی سرسید اور حالی کو نہیں نکال سکتی۔ اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ عسکری صاحب نے سرسید اور حالی کی قبر زمین پر نہیں پاتال میں بنائی ہے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
ہم نے سرسید پر کالموں کا سلسلہ لکھنا شروع کیا تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم اس کتاب کے اساس تصورات کی تلخیص اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اوریجنل کالموں کے لیے تو کہیں نہ کہیں سے چند گھنٹے چرا ہی لیتے ہیں مگر ایک دقیق علمی کتاب کی تلخیص کا وقت ہمیں دستیاب ہی نہیں۔ بہرحال اب ہم نے سوچا ہے کہ پوری کتاب کی تلخیص نہ سہی کتاب کے کچھ اہم گوشوں کی تلخیص ہی ہم آپ کے سامنے پیش کردیں۔ آج کا کالم اس سلسلے کا پہلا کالم ہے۔
سرسید نے اور کئی تصورات کی طرح فطرت کا لفظ اور اس کا مفہوم بھی جدید مغربی تہذیب سے لیا۔ عسکری صاحب کے بقول ابتدا میں سرسید نے اپنی تحریروں میں لفظ فطرت استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس کی جگہ ’’خدا کی قدرت‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ مثلاً سرسید نے ایک جگہ لکھا۔
’’اسی طرح یہ سب کرے کواکب کے مع ہماری زمین کے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک وسعت میں بکھیر دیے ہیں جو سب اپنی اپنی جگہ میں ہیں اور ان سب کے بیچ آفتاب ہے اور وہ سب اس کے گرد پھرتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ ایسے ایسے کتنے آفتاب اور کتنے ستارے ان کے ساتھ ہیں جو اس کے گرد پھرتے ہوں گے۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور صفت بے انتہا ہے‘‘۔
عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ اس کے بعد سرسید نے ’’خدا کی قدرت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی مگر بعدازاں سرسید کے یہاں اس اصطلاح سے خدا غائب ہوگیا اور صرف ’’قدرت‘‘ باقی رہ گئی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے یہاں ’’قانون قدرت‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہونے لگی۔ سرسید نے ان باتوں کے ساتھ یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ بے شک کائنات کا خالق تو خدا ہے مگر اس نے اپنی بنائی ہوئی کائنات میں چند قوانین رکھ دیے ہیں جو نہ کبھی بدلے ہیں نہ کبھی بدلیں گے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انسان ان قوانین کو خود اپنی عقل سے دریافت کرسکتا ہے لیکن یہ دریافت بتدریج ہوگی۔ اس طرح انہوں نے ایک طرف وحی کو غیر ضروری قرار دے دیا۔ دوسری طرف معلومات کو علم کے مساوی کردیا۔ یہ وہی دو مغالطے ہیں جن میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی مفکرین گرفتار تھے۔
(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت۔ از ڈاکٹر ظفر حسن، صفحہ 260-261)
عسکری صاحب کے مطابق لفظ Nature یا فطرت سے سرسید کی محبت بڑھتی گئی۔ انہوں نے ایک جگہ تحریر فرمایا کہ قدیم اصول یہ ہے کہ نیکی یا عبادت حور و قصور و بہشت کے ملنے اور دوزخ کے عذاب سے بچنے یا خدا کی رضا مندی کے لیے یا اس کی خفگی سے بچنے کے لیے کی جائے۔ جدید اصول یہ ہے کہ ہمارے ’’نیچر‘‘ کا تقاضا ہی یہ ہے کہ ہم کو نیک ہونا چاہیے۔ (صفحہ۔ 261-262)۔
عسکری صاحب نے لکھا ہے کہ سرسید نے رفتہ رفتہ لفظ ’’قدرت‘‘ کا استعمال ترک کرکے لفظ ’’نیچر‘‘ کو مکمل طور پر اختیار کرلیا۔ عسکری کے بقول فطرت کا لفظ Nature کا ترجمہ ہے اور سرسید کا ترجمہ غلط ہے۔ اس لیے کہ عربی زبان کی کتب میں نیچر کا ترجمہ ’’طبیعت‘‘ ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے عسکری صاحب نے کہا ہے کہ سرسید کے ذہن میں لفظ نیچر کے دو معنی ہیں۔ ایک نظام کائنات اور دوسرے انسان کی ماہیت اور ان دونوں کے لیے عربی میں جو لفظ موجود ہے وہ نیچر نہیں طبیعت ہے۔ (صفحہ۔ 263)۔
سرسید کی محبت لفظ نیچر سے اتنی بڑھی کہ انہوں نے معاذ اللہ خدا ہی کو نیچری قرار دے دیا۔ سرسید نے لکھا۔
’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان۔ نہ مقلد نہ لا مذہب، نہ یہودی نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو نیچری کہتا ہے۔ پھر اگر ہم بھی نیچری ہوں تو اس سے زیادہ ہم کو کیا فخر ہے‘‘۔
ایک اور جگہ تحریر کیا۔
’’جتنے پیغمبر گزرے ہیں سب نیچری تھے۔ خدا خود نیچری ہے، جب لوگوں نے نیچر کے قوانین کو چھوڑا تب ہی اس نے پیغمبر کو بھیجا۔ جو پیغمبر آیا اس نے کیا کہا؟ پھر لوگوں کو نیچر کا راستہ بتایا، اور جتنا بگاڑا تھا اتنے کو پھر سنوارا۔ جب موسیٰؑ جیسے نیچرلسٹ (Naturalist) کو لوگوں نے مجنوں کہا تو پھر ہم کس گنتی میں ہیں‘‘۔
(افکار سرسید۔ ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 63)۔
سرسید کے ان بیانات کو غور سے دیکھیے، وہ پیغمبروں اور خدا تک کو نیچری قرار دے رہے ہیں۔ اس سے کسی کم علم شخص کو خیال آسکتا ہے کہ سرسید نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے تو اس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس ہوگی۔ چوں کہ لفظ نیچر مغرب سے آیا ہے اس لیے مغرب کے بڑے مفکرین اور فلسفیوں نے اس سلسلے میں کوئی دلیل وضع کی ہوگی؟ یا اسلامی تہذیب یا عیسائی تہذیب میں اتنے بڑے دعوے کے دفاع کا سامان موجود ہوگا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس موضوع پر گفتگو عسکری صاحب کی بے مثال تحقیق کی روشنی میں آگے بڑھے گی تو سرسید کا سارا کھایا پیا سامنے آجائے گا۔