پارلیمانی کمیشن کہاں گیا۔۔۔؟؟

209

ابھی انتخابات 2018ء کے آخری مراحل جاری ہیں صدارتی انتخاب، گورنروں کے تقرر، کابیناؤں کی حلف برداری اضافے وغیرہ لیکن وفاقی حکومت کو ایک معاملے میں تیز رفتاری کا بھوت سوار ہے۔ دو روز قبل سینیٹ میں حکمراں جماعت کی ایک ٹیم جسے آر ٹی ایس ان میں تحقیقاتی کمیٹی کہا گیا ہے، نے فیصلہ سنا دیا کہ آر ٹی ایس کی ناکامی کی ذمے داری نادرا پر ہے۔ اس لیے اس کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اور اگلے روز یعنی ہفتے کو کمیٹی کے سربراہ اعظم سواتی نے وزیراعظم سے ملاقات کرکے جو فیصلہ سنایا وہ بھی قابل توجہ ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انتخابات شفاف ہونے کے تمام ثبوت ہیں لیکن نتائج میں تاخیر کا سبب آر ٹی ایس تھا جس کے ذمے دار نادار افسران ہیں۔ انہوں نے سفارش کی ہے کہ چیئرمین نادرا عثمان مبین اور دیگر دو افسران کو معطل کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی میں تحقیقات ممکن نہیں۔ بظاہر یہ ایک اچھا عمل ہے لیکن درحقیقت متحدہ اپوزیشن سے کیے گئے وعدے کی کھلی خلاف ورزی سے حکومت نے یہ طے کیا تھا کہ اس حوالے سے یعنی انتخابی دھاندلی کے الزامات اور نتائج گڑ بڑ کے الزامات کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے گا لیکن کسی پارلیمانی کمیشن کے قیام سے قبل ہی اگر حکومت یہ فیصلہ کرچکی ہوگی کہ ساری خرابی تو نادرا کی تھی۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب تک چیئرمین نادرا عثمان مبین اور ان کے دو اور اہم ساتھی اپنے عہدوں پر ہیں وہ یہ ثابت کرتے رہیں گے کہ الیکشن والے روز آر ٹی ایس کام کررہا تھا۔ اگر یادداشت عوام کی کمزور ہوتی ہے تو حکمران بھی کچھ کم نہیں ویسے اپوزیشن میں رہتے ہوئے اکثر باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مطلب کی بات ہر ایک کو یاد رہ جاتی ہے۔ تو یاد رہ جانے والی بات یہ ہے کہ الیکشن کمشین نے بھی نادرا پر ملبہ ڈالا تھا اور نادرا حکام نے الیکشن کمیشن حکام کو بلا کر آر ٹی ایس کے مکمل طور پر کام کرنے کا مشاہدہ بھی کرادیا تھا اور الیکشن کمیشن نے اس کے بعد آر ٹی ایس کے کی خرابی کا نادرا پر الزام لگانے کے حوالے سے خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اب ایک بار پھر حکومتی سینیٹر نے یہ تجویز دے دی ہے کہ چیئرمین نادرا کو ہٹایا جائے۔۔۔ ظاہر ہے جب تک چیئرمین نادرا اپنی پوزیشن پر ہیں اس وقت تک وہ آر ٹی ایس کے درست کام کرنے کے موقف پر قائم رہیں گے اور ثبوت بھی دیتے رہیں گے۔ لہٰذا نہ رہے گا بانس۔۔۔ نہ بجے گی بانسری۔۔۔ کے مصداق چیئرمین نادرا اور ’’رکاوٹ بننے والے‘‘ افسران کو معطل کردو۔۔۔ ان کے مقدمات نیب کے حوالے کردو۔۔۔ پھر جب پارلیمانی کمیشن بنے گا اس وقت تک نیب کی رپورٹ آچکی ہوگی کہ ساری خرابی اور غلطی نادرا کی تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ پھر پارلیمانی کمیشن کیا کرے گا۔ انتخابات شفاف تھے آر ٹی ایس نادرا نے خراب کیا تھا۔۔۔ تو پھر شکایت کیسی۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا یہ حکومت کے خلاف ہنگامہ اور واوایلا کرنے کے لیے اپوزیشن کا ایک بڑا ہتھیار ہوگا۔ بلکہ اسے بڑا موقع سمجھ کر حکومت کے خلاف اپوزیشن خوب استعمال کرے گی۔ ہمارا مشورہ تو یہی ہے کہ پی ٹی آئی اپنے ایجنڈے پر قائم رہے اور تبدیلی کے لیے جدوجہد کرے اب تو انتخابات ہوچکے اور کسی میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ انتخابات کو کالعدم کروا سکے۔ اپوزیشن نے بہت ہنگامہ کرلیا تو دوچار دس حلقے کھول کر نئے انتخابات کرا لیے جائیں گے اور بیشتر دوبارہ جیت لیے جائیں گے یوں اشک شوئی بھی ہو جائے گی۔ انتخابات پر سند بھی مل جائے گی۔ ان انتخابات، آر ٹی ایس کی مبینہ خرابی، نتائج میں تبدیلی کے الزامات پر جتنا بھی شور مچا لیا جائے ایک حد سے آگے بات نہیں جائے گی۔ لہٰذا حکومت اپنے ایجنڈے پر توجہ دے ادھر ادھر کے مسائل نہ چھیڑے۔ کیونکہ اس نے جو نعرہ لگایا ہے وہ خود اس کے لیے ایک مصیبت ہے۔ اب تک سب ترقی کا نعرہ لگاتے تھے اور ترقی اعداد وشمار میں غائب ہو جاتی ہے یوں پانچ سال گزر جاتے ہیں لیکن تبدیلی ایسی چیز ہے جس کو لوگ دیکھ سکتے ہیں محسوس کرسکتے ہیں یہ نظر آتی ہے۔ لہٰذا اب پی ٹی آئی صرف پی ٹی آئی نہیں حکومت بھی ہے اور حکومت کو حکومت والی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ہر اقدام پر اسی طرح تنقید ہوگی جس طرح حکومتوں پر کی جاتی ہے۔ اور تبدیلی صرف اعلانات کا نام نہیں ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا ہے بہت سی منزلیں ہیں ایسے کام نہ کیے جائیں جو پی ٹی آئی کو اپنے راستے سے ہٹا دے۔جلد بازی میں ایسے اعلانات بھی کردیے گئے ہیں جو پہلے سے طے شدہ اور اعلان شدہ تھے مثلاً صوابدیدی فنڈز پر پابندی تو عدالت عظمیٰ لگا چکی تھی یہ تو صرف عملدرآمد ہے۔ یا گورنر بلوچستان اور سندھ کا تقرر، یہ معاملات الٹے پڑ رہے ہیں۔