عمران خان 22 سال کی طویل جدوجہد کے بعد پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے 22ویں وزیراعظم بن گئے ہیں۔ یار لوگوں نے ان کے بارے میں یہ افواہ اُڑا رکھی تھی کہ ان کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیں ہے، وہ چاہے جتنے پاپڑ بیل لیں وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ لیکن ان کی دُھن اور لگن نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور قدرت ان کی ہتھیلی پر وزارت عظمیٰ کی لکیر کھینچنے پر مجبور ہوگئی۔ وزیراعظم بنتے ہی وہ پانچ سال کے لیے کمرۂ امتحان میں داخل ہوگئے ہیں جہاں ایک طویل پرچہ امتحان ان کا منتظر ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پرچہ امتحان کسی ممتحن نے ان کے لیے تیار نہیں کیا بلکہ یہ پرچہ انہوں نے خود مرتب کیا ہے اور خود کو امتحان کے لیے پیش کردیا ہے۔ اگر انہوں نے یہ پرچہ حل کرلیا اور اپنے مرتب کردہ سوالوں کے تسلی بخش جوابات دے دیے اور قومی زندگی پر ان کے مثبت اثرات ظاہر ہوگئے تو قوم انہیں اپنے کندھوں سے اٹھا کر سر پر بٹھا لے گی بصورت دیگر ان کے ساتھ جو ہوگا اسے بیان کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔
اب آتے ہیں اس پرچہ امتحان کی طرف جو عمران خان نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا ہے اور اسے حل کرنے کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔ پہلا سوال سادگی اور کفایت شعاری سے متعلق ہے۔ عمران خان نے اس سوال کا نہایت مثبت انداز میں جواب دیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ خود بھی سادگی اختیار کریں گے اور اپنے وزرا کو بھی سادگی اختیار کرنے پر مجبور کریں گے۔ پہلے قدم کے طور پر انہوں نے گیارہ سو کنال پر محیط وسیع و عریض شاہانہ تمکنت کے حامل وزیراعظم ہاؤس میں رہنے سے انکار کردیا ہے، وزیراعظم ہاؤس کے پانچ سو ملازمین بھی فارغ کردیے گئے ہیں(یہ نہیں معلوم ہوسکی کہ بیروزگاری کے اس دور میں ان کے روزگار کا کیا بندوبست کیا گیا ہے)۔ عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں موجود اتنی پرتعیش گاڑیوں میں سے صرف چار اپنے استعمال میں رکھیں گے باقی 76 گاڑیاں نیلام کرکے رقم قومی خزانے میں جمع کرادیں گے۔ ظاہر ہے کہ
وزیراعظم ہاؤس کا کچن بھی بند کردیا جائے گا جہاں روزانہ چالیس کلو گوشت پکتا تھا، مختلف ڈشز تیار ہوتی تھیں اور یومیہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے تھے۔ نومنتخب وزیراعظم نے اپنی رہائش کے لیے ملٹری سیکرٹری کی اقامت گاہ پسند کی ہے جہاں فرنیچر اپنے بنی گالا کے مکان سے لا کر ڈالا گیا ہے اور ملازم صرف دو رکھے گئے ہیں۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ نہ خود پروٹوکول لیں گے نہ کسی دوسرے کو لینے دیں گے۔ یہ ساری باتیں بہت اچھی ہیں اگر ان کے وزیروں نے بھی یہی کلچر اپنایا تو ملک میں سادگی اور کفایت شعاری کے کلچر کو فروغ ہوگا۔ قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھنے کا رجحان بڑھے گا اور پاکستان جو شاہانہ اللّوں تللّوں کے سبب بال بال قرضوں میں پھنسا ہوا ہے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور محسوس کرے گا۔
پرچہ امتحان کا دوسرا سوال احتساب اور بے لاگ احتساب ہے۔ نو منتخب وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان سے لوٹا ہوا پیسہ بیرون ملک سے واپس لائیں گے اور کسی چور اور کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے وہ احتساب کا آغاز اپنے گھر یعنی اپنی پارٹی سے کریں گے۔ انہوں نے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی ہے اور پرچہ امتحان میں بھی یہ سوال شامل کرلیا ہے لیکن کیا وہ ایسا کرپائیں گے؟ ان کی
پارٹی میں ان سب لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے جو احتساب سے خائف ہیں، جو کابینہ تشکیل دی گئی ہے اس میں کرپٹ لوگوں کا گراف خاصا بلند ہے۔ پرویز مشرف دور کے بارہ افراد اس میں شامل ہیں جو ہر حکومت میں شامل ہونے اور حالات کو جوں کا توں (اسٹیٹس کو) برقرار رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں، ان کی پارٹی کا ایک شخص بوڑھوں، معذوروں اور بیواؤں کی پنشن (ای او بی آئی) کے اربوں روپے ڈکار گیا ہے، اس نے پارٹی میں پناہ ہی اس لیے لی ہے کہ کوئی اس پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ عمران خان نے دوسری پارٹیوں کے جو لوگ کابینہ میں شامل کیے ہیں ان کے دامن بھی کرپشن سے داغدار ہیں، حتیٰ کہ دو خاتون وزرا زبیدہ جلال اور فہمیدہ مرزا بھی کرپشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، اول الذکر بدعنوانی کے نہایت گھٹیاں اسکینڈل میں ملوث ہے جس کی تفصیل ممتاز کالم نگار رؤف کلاسرا نے اپنے 22 اگست کے کالم میں دی ہے جب کہ فہمیدہ مرزا کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں اسپیکر منتخب ہونے کے بعد اٹھاسی کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرایا تھا اور اسپیکر شپ سے ریٹائر ہونے پر انہوں نے اپنے لیے تاحیات مراعات کا پیکیج منظور کرلیا تھا حالاں کہ یہ سیاسی عہدہ ہے کوئی سرکاری ملازمت نہیں۔ عمران خان کے اتحادیوں میں اور کئی بینک ڈیفالٹر اور نیب زدہ ہیں، پنجابی محاورے کے مطابق وہ جب تک اپنی ’’منجی تھلے ڈانگ‘‘ نہیں پھیرتے ان کا احتساب کا نعرہ بے معنی رہے گا اور مخالفین کے احتساب کو محض انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔ کیا عمران خان یہ کام کرسکیں گے؟ اگر انہیں یہ کام کرنا ہوتا تو وہ کرپٹ لوگوں کے ساتھ اتحاد کیوں بناتے۔ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت
بھی حاصل نہیں ہے وہ مانگے تانگے کے ووٹوں سے محض پانچ ووٹوں کی برتری سے وزیراعظم بنے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں جعلی مینڈیٹ کے ذریعے وزیراعظم بنایا گیا ہے اگر مخالفین کا یہ دعویٰ درست تسلیم کرلیا جائے تو ہمیں عمران خان پر رحم آتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے انہیں دو تہائی اکثریت نہ سہی، سادہ اکثریت بھی نہیں دلوائی کہ وہ کسی کے ممنونِ احسان نہ ہوتے اور آزادی سے اپنے خواب کو تعبیر دے سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ خان صاحب کے عزائم بلند ہیں ان کے پہلے خطاب سے ملک و قوم کے لیے ان کی فکر مندی جھلکتی ہے، وہ ملک کو قرضوں کے انبار سے نجات دلانا چاہتے ہیں، لوٹی ہوئی دولت بیرونِ ملک سے واپس لانا چاہتے ہیں، بے لاگ احتساب کے خواہاں ہیں، وہ بلا امتیاز سب کو انصاف فراہم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، وہ غریب اور پسے ہوئے طبقے کو عزت کے مقام پر بٹھانا چاہتے ہیں، وہ ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، وہ کسی کمپلیکس کا شکار نہیں ہیں، مغربی ماحول میں پلنے بڑھنے کے باوجود قومی زبان اردو میں اپنا ماضی الضمیر بیان کررہے ہیں لیکن کیا وہ اسے سرکاری زبان کا درجہ بھی دے پائیں گے۔
عمران خان کے ہاتھ میں جو پرچہ امتحان ہے اس میں سوالات کی بھرمار ہے، یہ وہ سوالات ہیں جو انہوں نے خود تیار کیے ہیں، اب وہ انہیں ہاتھ میں لیے حیران و پریشان ہیں، وہ صرف ایک سوال کا ادھورا جواب دے پائے ہیں باقی سب سوالات حل طلب ہیں، اگرچہ ان کے پاس پرچے کو حل کرنے کے لیے پانچ سال پڑے ہیں لیکن ہمیں ڈر ہے کہ وہ اپنی سیماب صفت طبیعت کے سبب کہیں پرچہ ادھورا چھوڑ کر کمرہ امتحان سے باہر نہ نکل آئیں۔ اب یہ قوم کی ذمے داری ہے کہ انہیں کمرہ امتحان سے باہر نہ نکلنے دے اور پرچہ حل کروانے میں ان کی مدد کرے۔