بلدیہ کے متوازی ادارے کس نے بنائے؟

145

کسی زمانے میں پاکستان کی ماڈل سٹی گورنمنٹ کراچی قرار پائی تھی لیکن نعمت اللہ خان کے جانے کے بعد کراچی کی بلدیہ اور اداروں کا جو حال کیا گیا وہ آج سب کے سامنے ہے۔ کراچی کچراچی بنا ہوا ہے۔ میئر وسیم اختر صاحب جب سے منتخب ہو کر آئے ہیں اختیارات نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ جو کام کرسکتے ہیں وہ بھی نہیں کررہے اور جو نہیں کرسکتے وہ کر ہی نہیں سکتے۔ کراچی کی بلدیہ کا نظام سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور میں تباہی کی طرف چل پڑا تھا اور گزشتہ پانچ برسوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے کئی درجن ارکان صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں سندھ کی حکومت نے بلدیہ کراچی کے کئی محکموں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ اس کے بعد جب انتخابات ہوئے درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے متحدہ کے وسیم اختر کو میئر بنا دیا گیا اور منتخب ہونے کے بعد سے آج تک وہ اختیارات مانگ رہے ہیں۔ اب انہوں نے نیا مسئلہ کھڑا کیا ہے جو حقیقت بھی ہے۔ یعنی بلدیہ کے متوازی کئی ادارے بیک وقت کام کررہے ہیں۔ لیکن جناب اس کی ذمے داری بھی تو متحدہ اور ان کی ٹیم پر عاید ہوتی ہے۔ آج وفاقی حکومت سے اس حوالے سے مطالبے کرنے کے بجائے وسیم اختر متحدہ کے ارکان صوبائی اسمبلی کی مدد حاصل کریں اور سندھ کے محکموں کو دوبارہ بلدیہ کے پاس لائیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی نے میٹروپولیٹن بلدیہ کا مطالبہ کیا تھا جس پر غوث علی شاہ نے ان کی بلدیہ توڑ دی تھی۔ پھر سٹی گورنمنٹ کم و بیش اس سے ملتی جلتی چیز تھی لیکن آمروں نے اسے بھی توڑ پھوڑ کر نیا نظام بنایا اور اب پھر میئر کا نظام اپنایا گیا ہے۔ پھر شکوہ کس سے کیا جارہا ہے۔