خطبۂ حج 1439ہجری

323

 

 

۔20اگست 2018 کو میدانِ عرفات میں حج کا رُکنِ اعظم ’’وُقوفِ عرفہ‘‘ ادا کیا گیا اور امام الحج، جو مسجدِ نبوی کے امام اور مدینۂ منورہ کے قاضی بھی بتائے جاتے ہیں، نے مسجدِ نمرہ میں خطبۂ حج دیا۔ یہ خطبۂ حج ایک ایسے وقت میں جاری ہوا جب امتِ مسلمہ ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور قابلِ ذکر مسلم ممالک میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو داخلی یا خارجی اعتبار سے کسی نہ کسی مشکل اور ابتلا سے دوچار نہ ہو۔ ترکی کی معیشت مستحکم ہورہی تھی، وہ دنیا کی سولہویں بڑی معیشت قرار دیا جارہا تھا، پاکستان اور ترکی دو ایسے مسلم ممالک ہیں جو جدید تربیت یافتہ اور منظّم فوج اور دفاعی نظام رکھتے ہیں، اچانک امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کو اپنے نشانے پر رکھ لیا، اس کے خلاف اقتصادی اقدامات شروع کردیے، اس کی امریکا میں درآمدات پر بھاری ڈیوٹی لگادی اور ترکی کی کرنسی لیرا کی ڈالر سے مبادلاتی صلاحیت تیزی سے گرنے لگی۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے جوابی اقدام کے طور پر امریکا کی الیکٹرونک مصنوعات پر بھاری ڈیوٹی لگانے کا اعلان کیا ہے، لیکن دونوں ملکوں کی مزاحمتی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس تنازعے کا سبب یہ ہے کہ باغیوں کے ساتھ روابط اور بغاوت کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزام میں امریکی پاسٹر، مسیحی چرچ میں ریلیجیس منسٹر، اینڈریو برنسن کو ترکی کی عدالت نے جیل میں ڈالا، اس کے بعد امریکا کی پوری انتقامی کارروائی اسی کا شاخسانہ ہے۔ طیب اردوان ہماری طرح فرمانبردار اور مصلحت پسند ہوتے تو امریکی پاسٹر کو باعزت رہا کر کے وطن واپس بھیج دیتے اور چَین کی بانسری بجاتے، جیسا کہ ہم نے ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جُوزِف ایمانیوہال کے سلسلے میں کیا تھا، لیکن قومی حمیت ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ ترکی لیرا کو سہارا دینے کے لیے قطر نے پندرہ ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا، اس پر 24اگست کو ٹرمپ کے سیکورٹی ایڈوائزر جون بولٹن نے کہا: ’’جب تک پاسٹر کو چھوڑا نہیں جاتا، ہم مزید اقدامات کریں گے اور قطر کے پندرہ ارب ڈالر بھی ترکی لیرا کو سہارا نہیں دے سکیں گے‘‘۔
اس کے علاوہ یمن، شام، قطر، ایران اور پورا مشرقِ وُسطیٰ کسی نہ کسی طور سے متاثر ہے۔ سعودی عرب اپنے دفاع کے لیے پاکستان کی مسلّح افواج پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے، لیکن پاکستان بھی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالاجاچکا ہے اور ایف اے ٹی ایف کا وفد اگلے اقدامات سے پہلے پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے دورہ کرچکا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو کی وزیر اعظم عمران خان سے گفتگو کے حوالے سے ہماری بریفنگ اور وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں فرق سامنے آچکا ہے اور اب ممکنہ طور پر وہ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں، اُن کا لب ولہجہ اور مطالبات وخواہشات یقیناًہماری توقعات کے برعکس ہوں گے۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ عرفات میں جاری کیا جانے والا خطبۂ حج سید المرسلین ؐ کے دس ہجری کے خطبۂ حجۃ الوداع کا تسلسل، توارُث اور تتابُع ہے۔ آپ ؐ نے آج سے 1429 سال قبل اپنے اُس خطبے میں عالمِ انسانیت کے تمام طبقات، جن میں خواتین اور زیریں طبقات بھی شامل ہیں، کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی،قبیلے اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تفاخر کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا، تقوے کو انسانی شرف کا معیار قرار دیا تھا اور سینتالیس دفعات پر مشتمل ایک جامع، مبسوط اور مفصل منشور جاری فرمایا تھا۔
1439 ہجری کے خطبۂ حج میں اسلامی عقائد، عبادات، اخلاقیات اور مناسکِ حج کا یقیناًذکر تھا اور ہم اس کی تحسین وتائید کرتے ہیں، لیکن اس وقت عالمی سطح پر امت کو جو مسائل در پیش ہیں، اُن کے بارے میں مسجدِ نمرہ کا منبر لاتعلق اور خاموش نظر آیا۔ ہم کتابی معیار پر حج کے جو فضائل بیان کرتے ہیں، وہ ایک تقریری مقابلہ بن کر رہ جاتے ہیں، حج کے عملی مناظر اور مظاہر میں ہمیں اُن کی جھلک نظر نہیں آتی۔ کاش کہ خطبۂ حج میں امت کے ان مسائل کی نشاندہی کی جاتی، ان کا کوئی حل پیش کیا جاتا، بے حس مسلم حکمرانوں کو، جو اُمت کی فلاح سے زیادہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے سرگرداں رہتے ہیں، جھنجھوڑا جاتا، اُن کی دینی اور ملّی حمیت کو للکارا جاتا، عملاً اُمت کو کچھ ریلیف ملتا یا نہ ملتا، کم از کم انہیں یہ تسکین ہوتی کہ مسجد نمرہ کا منبر اُن کے کرب، درد اور دکھ کو سمجھ رہا ہے اور اُسے زبان دے رہا ہے۔
سعودی عرب میں روزگار اور کاروبار کے سلسلے میں مقیم بہت سے غیر ملکی بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کو مسائل درپیش ہیں۔ لیکن اُن کے دکھوں کو زبان دینے اور اُن کے درد کا ازالہ کرنے کی کوئی تدبیر نہ ہماری حکومت اختیار کر رہی ہے، نہ ہمارے سفارت خانے اس سلسلے میں متحرک ہیں اور حقوقِ انسانی کے فعال کارکنوں کے خلاف تو حال ہی میں کریک ڈاؤن کیا گیا ہے، جن کے حق میں آواز بلند کرنے پر سعودی عرب اور کینیڈا کے تعلقات میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، سعودی ائر لائن کی فضائی پروازیں معطل ہوچکی ہیں اور اس سال کینیڈا کے عازمینِ حج کو اچانک پروازیں موقوف ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ہوسکتا ہے کہ بعض حج سے محروم رہ گئے ہوں، حالاں کہ حکومتِ سعودی عرب کو تعلقات کی خرابی کے باوجود حجاج کرام کے لیے خصوصی پروازوں کا بندوبست کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ اکثر حجاج کے پاس سعودی ائر لائن کے ریزرو ٹکٹ موجود تھے۔ امام الحج نے توحید، تقوے، توکل اور دینی عبادات کی تعمیل کی تاکید کے ساتھ تلقین کی، ہم اس کی تائید کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے قرابت کے رشتوں کو جوڑنے یعنی صلۂ رحمی کے بارے میں قرآن وسنت کے احکام بیان کیے جو درست اور بروقت ہیں۔ انہوں نے خطبۂ حجۃ الوداع کے حوالے سے خواتین اور بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے احکام بیان کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ماں باپ کی طرف سے ہبہ کی صورت میں اولاد کے درمیان مساوات اور اسلام کے قانونِ وراثت کو اجباری طور پر نافذ کرنے کے بارے میں مسلم حکمرانوں کو قانون سازی کا مشورہ دیتے، یہ قوانین قرآن وسنت اور فقہ کے ذخیرے میں تو موجود ہیں، لیکن عملاً ان کا نفاذ بہت کم ہے۔ اگران دو شعبوں میں قرآن وسنت اور فقہِ اسلام کے احکام کو نافذ کردیا جائے تو خواتین کے اسّی فی صد مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے، اسی طرح نکاح کے موقع پر بالغہ عورت کی رضا مندی کو لازمی قرار دیا جائے تو اُن کے لیے کافی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔
امام الحج نے تکبر واستکبار، سرقہ، غیبت، دوسروں کے پوشیدہ احوال کے تجسّس اور کھوج لگانے کی ممانعت اور تمسخر واستہزاء ایسے اخلاقی مفاسد سے بچنے کی تلقین کی، ہم وقتاً فوقتاً اپنے کالم میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور خاص طور پر سیاسی قائدین اور میڈیا کے لوگوں کو اس کی تلقین کرتے ہیں، لیکن شاید امام الحج کی زبان میں تاثیر زیادہ ہو اور لوگ اس کی اتباع کرلیں تو یہ ایک پرامن اور تعمیری معاشرے کی تشکیل کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔
میری حرمین طیبین کے ائم�ۂ کرام اور امام الحج سے اپیل ہے کہ وہ سعودی عرب کے تھانوں اور جیلوں کا دورہ کریں، کیوں کہ اُن کے پاس افتاء وقضا کے شعبے بھی ہیں، وہاں جو غیر ملکی بے سہارا مظلومین ہیں، اُن کی رہائی کے لیے سعودی حکومت کو سفارش کریں۔ اسی طرح حقائق پر مبنی بکثرت ایسی اطلاعات اور شکایات موجود ہیں کہ سعودی عرب میں کفیل کا ادارہ کافی حد تک جانب یعنی غیر ملکیوں کا استحصال کرتا ہے، میری تجویز والتجا ہے کہ حرمین طیبین کے ائمۂ کرام اور قُضاۃ اُن کی داد رسی کے لیے اپنی نگرانی میں کوئی شعبہ مقرر کریں اور مظلومین کے لیے فوری انصاف کی فراہمی کا کوئی طریقۂ کار وضع کریں، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اگر شکایات غلط ہیں یا جھوٹ پر مبنی ہیں تو وہ منظر عام پر آجائیں گی اور اس سے سعودی حکومت کے اداروں کا مثبت رُخ سامنے آئے گا۔
کسی کو اپنے ملک میں داخل ہونے کے لیے ویزا دینا یا نہ دینا یا روزگار کے مواقع دینا یا نہ دینا، یہ ہر حکومت کی اپنی صوابدید ہوتی ہے، ہر حکومت اپنی پالیسیاں بنانے میں آزاد ہوتی ہے، ہر حکومت اپنے شہریوں کے حقِ روزگار کے تحفظ کا بھی حق رکھتی ہے، لیکن جو لوگ قانونی دستاویز اور اجازت نامے کے ساتھ کسی ملک میں آئے ہوں، تو وہاں کی حکومت پر لازم ہے کہ اُن کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرے اور انہیں جائز حقوق سے محروم نہ کرے۔ سعودی عرب حرمین طیبین کی وجہ سے امتِ مسلمہ کا مرکز ہے، وہاں کے لوگوں اور حکومت کو عام مسلمان حرمین طیبین کی نسبت کے سبب احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ احترام قائم رہنا چاہیے۔
کیا حرمین طیبین کی تولیت اور خدمت وحفاظت کے شرف کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں اجانب کے لیے ملازمتوں کی پیشکش کرتے وقت مسلمانوں اور مسلم ممالک کے شہریوں کو ترجیح دیں۔
خطبۂ حج میں ناموسِ رسالت وناموسِ مقدّساتِ دین کے تحفظ کی طرف مسلم حکمرانوں کو متوجہ کرنا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، اس وقت اس کی ضرورت اس لیے شدید تھی کہ ہالینڈ میں توہینِ رسالت پر مبنی کارٹونوں کے مقابلے کا المیہ درپیش ہے اور ہالینڈ کی حکومت اُن پر پابندی لگانے سے دست کَش ہوگئی ہے، اگر سعودی حکومت حقوقِ انسانی کے حوالے سے کینیڈین سفیر اور وزیر کے بیانات کے ردِ عمل میں اقتصادی اقدامات کا اعلان کر کے اُن پر عمل درآمد کرسکتی ہے، تو اُن کی حکمرانی تو بیت اللہ اور تاجدارِ ختمِ نبوت ؐ کی نسبت سے قائم ہے، امام الحج کو متوجہ کرنا چاہیے تھا کہ سعودی حکومت اس حوالے سے سفارتی، انضباطی اور اقتصادی اقدامات کا اعلان کرے اور دیگر مسلم ممالک کو بھی اس پر آمادہ کرے۔