بلدیاتی نظام ’’خوب صورت ستارے‘‘ اور حکومت سندھ 

301

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ’’تبدیلی‘‘ کی بازگشت میں اقتدار میں آچکی ہے۔ مگر کیا ملک کے سب بڑے شہر کراچی کے حالات بدلیں گے، یہاں کے مسائل ختم نہیں تو کیا کم ہوسکیں گے؟ اور کیا کراچی کے بلدیاتی ادارے بااختیار ہوسکیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کراچی کی مجموعی صورت حال دیکھنے کے بعد ہر ذی شعور شخص کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں مسلسل دس سال سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت ان سوالات ہی سے لاتعلق ہے۔ شہریوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت جمہوریت کی نرسری کو اپنے تئیں ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس تین سطحی نظام کو اپنی گرفت میں کیا ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں تینوں سطحوں یعنی میٹرو پولیٹن، میونسپل کارپوریشن اور یونین کونسل کے منتخب نمائندوں کا ایک دوسرے سے مربوط تعلق ہونے کے باوجود اپنی اپنی سطح میں یہ تینوں براہ راست حکومت سندھ کو جواب دہ ہیں۔ جس کے نتیجے میں بابائے شہر یا رئیس بلدیہ کا کردار فوت ہوچکا ہے۔ ماضی میں میئر کراچی کو جو اختیارات حاصل تھے اس کے نتیجے میں وہ فادر آف سٹی کہلاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سیز) کے مختلف منتخب چیئرمین اور کونسلز میئر کے ماتحت ہونے کے ساتھ اسے جواب دہ بھی ہوا کرتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ملک کی تاریخ میں اگر بلدیات کا کوئی بہترین نظام رائج ہوا ہے تو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم تھا یا پھر سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈننس 1979 کے تحت قائم کیا جانے والا نظام تھا۔ یہ دونوں بلدیاتی نظام بالترتیب سابق صدور پرویز مشرف اور ضیاء الحق کے ادوار میں تخلیق کیے گئے تھے۔ پہلے یعنی 1979 کے بلدیاتی نظام میں کراچی کی ترقی کا آغاز ہوا جب کہ دوسرے یعنی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے سسٹم میں کراچی اپنے پھیلاؤ کے ساتھ ترقی یافتہ کہلانے لگا تھا۔ لیکن یہ باتیں اب ماضی کا حصہ ہوچکیں۔ ’’سی ڈی جی‘‘ نظام کے تحت ان تمام محکموں کو جن کا تعلق شہروں کی ترقی اور دیکھ بھال سے تھا صوبے سے لیکر اس کے ماتحت کردیا گیا تھا۔ یہ شہری ضلعی حکومت کا سسٹم ہی تھا جس کی وجہ سے صوبائی اسمبلیاں حقیقی قانون ساز ایوان بن چکی تھیں۔ لیکن ہر سطح پر حکمرانی کرنے والے اذہان کے سیاست دانوں کے لیے اس نظام کو برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا نتیجے میں 2000 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملک بھر میں تشکیل دیے گئے اس نظام کو 2010 میں توسیع دینے کے بجائے جمہوری حکومتوں نے سرے سے ختم ہی کردیا۔
سندھ میں سی ڈی جی سسٹم ختم کرنے کے ساتھ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈننس 1979 کو 2013 میں بحال کیا گیا بعد ازاں اس میں ترمیم کرکے ایکٹ میں تبدیل کیا گیا اور پھر اس ایکٹ میں مختلف وقتوں میں ترامیم کرکے پہلے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بعدازاں کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی اور کراچی ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو صوبائی حکومت نے براہ راست اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے ساتھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی نگرانی موجود سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے محکمے کو بھی اپنے کنٹرول میں کرلیا اس مقصد کے لیے 2015 میں ایک نیا محکمہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کردیا گیا جو تین سال گزر جانے کے باوجود تاحال اپنے دائرے کار میں موجود تمام ذمے داریاں نہیں سنبھال سکا۔ عام خیال ہے کہ اس بورڈ کو قائم کرکے صفائی ستھرائی سے متعلق بنیادی بلدیاتی امور کو بلدیاتی اداروں سے چھین لیا گیا۔ نتیجے میں وہی ہورہا ہے جس کے خدشات تھے۔ اب کراچی میں جگہ جگہ گندگی غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں تو حیرت کی کوئی بات نہیں۔ کیوں کہ حکومت ایس ایس ڈبلیو ایم بی کو اس کے مقاصد کے مطابق ڈھال بھی نہیں سکی جس ایکٹ کے تحت یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ اس قانون میں یہ بھی تھا کہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں سے کچرے سے متعلق تمام امور لیکر اس بورڈ کے حوالے کردیے جائیں گے۔ لیکن ڈی ایم سیز کی منتخب کونسل کی مخالفت کی وجہ سے کراچی کے ضلع وسطی اور کورنگی کے سولڈ ویسٹ کے امور کسی طور پر بھی ایس یس ایم بی ڈبلیو کے حوالے نہیں ہوسکے۔ اس طرح کراچی کے صفائی ستھرائی سے متعلق امور ایس ڈبلیو ایم بی اور ڈی ایم سیز کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایس ایس ڈبلیو ایم بی قائم کرنے کے بجائے اس پر خرچ کیے جانے والی رقم بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز کو دیدی جاتی تاکہ وہ یہ کام مزید بہتر طریقے کرسکتے۔ مگر سندھ حکومت نے تعصب کی عینک پہن کر ایک نیا ادارہ بنادیا جو پورے سندھ کی سطح پر ہے مگر اب کراچی سمیت پورا سندھ ہی غلاظت کا نمونہ بن چکا ہے۔
کراچی کی صورت حال پر میئر کراچی وسیم اختر نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی سے ضلعی میونسپل کارپوریشن ختم کی جائیں، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اپنا کام انجام نہیں دے سکتا اسے بھی کالعدم قرار دیا جائے، سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈننس پر نظر ثانی کی جائے اور اس میں ضروری ترامیم کرکے کراچی کے شہریوں کے مفاد میں لایا جائے، کراچی کو آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں 12 ارب روپے ملنے چاہئیں ہمیں صرف 6 ارب روپے دیے جاتے ہیں باقی کہاں جاتا ہے کسی کو نہیں معلوم؟۔ وسیم اختر نے نجانے کیوں حیرت انگیز طور پر یہ بھی بتایا کہ عید الاضحی کے موقع پر آلائشوں کے لیے کیا جانے والا آپریشن گزشتہ برسوں سے بہتر رہا ہے تمام منتخب یوسی چیئرمین اور بلدیاتی نمائندوں نے عیدالاضحی کے دنوں میں متحرک کردار ادا کیا ہے۔ حالاں کہ سوائے ڈسٹرکٹ ایسٹ کے تمام اضلاع میں صفائی ستھرائی کی صورت حال ابتر رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی کے حوالے سے رواں منتخب بلدیاتی دور ناکام ترین دور ہے۔ اس دور میں نہ صرف بلدیہ عظمیٰ کی منتخب بعض اہم شخصیات قائد اعظم محمد علی جناح کے شہر کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ سندھ حکومت بھی شہر اور اس کی سڑکوں کی تعمیر و ترقی کے نام پر سرکاری فنڈز دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں شہر اور شہریوں سے مخلص نہیں ہیں۔ میئر وسیم اختر اختیارات نہ ہونے کا رونا تو روتے ہیں مگر وہ پھر بھی حکومت سندھ کی جانب سے معطل محکمہ باغات کے ڈی جی سے اسی طرح کام لے رہے ہیں جیسے وہ بحال ہے۔ یہی نہیں وہ اس محکمے کے کروڑوں روپے کے ان کاموں کے بلوں کی ادائیگی کی بھی منظوری دے رہے ہیں جو مبینہ طور پر ان کے دور میں کرائے ہی نہیں گئے۔ فنڈز کی اس لوٹ مار کے لیے انہیں ایک سابق ڈی جی کی خصوصی خدمات حاصل ہیں۔ یہ سابق ڈی جی محکمہ پارکس میں کرپشن کرنے کی بڑی ’’لیاقت‘‘ رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف ماضی میں کرپشن کے الزام میں اینٹی کرپشن نے مقدمات بھی قائم کیے شاید یہی وجہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کے اب بھی وہ ’’بے تاج بادشاہ‘‘ ہیں۔ وہ اس قدر بااثر ہیں کہ انہوں نے پورے محکمہ باغات کو صرف باغ ابن قاسم تک محدود کرکے پورے محکمے کے بجٹ کو ’’خوبصورت ستارے‘‘ کی روشنی کے طفیل سلیقے سے کھا رہے ہیں۔ ویسے تو منتخب ’’خوبصورت ستارے‘‘ کی آشیرباد کے نتیجے میں ’’نیک عالم‘‘ بھی فائر برگیڈ کو تباہ و برباد کرکے اب دیگر تمام محکموں تک رسائی حاصل کرچکے ہیں مگر پھر بھی ’’اور مزید اور‘‘ کے چکر میں وہ سب کررہے ہیں جس سے وہ جلد ہی نیب کے گرفت میں آسکتے ہیں۔ بہرحال میئر وسیم اختر کو اب باتیں نہیں بلکہ کام کرنا چاہیے اور کراچی سے حقیقی محبت کا ثبوت دینا چاہیے ورنہ کراچی کے لوگوں کے لیے وسیم اختر اور سندھ حکومت کے رویے میں فرق کرنا مشکل ہوجائے گا۔ شہریوں کو آئندہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ سندھ کے نئے صوبائی وزیر بلدیات اور بلدیہ عظمیٰ کے سابق کونسلر سعید غنی شہر کے مسائل کے سدباب اور ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں۔ وزیر بلدیات کی حیثیت سے وہ چیئرمین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی ہوں گے اس لیے سعید غنی کو اس بورڈ پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ واٹر بورڈ کے نظام کی بہتری کے لیے انہیں قوانین اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انتظامی فیصلے کرنے ہوں گے۔ نئے وزیر بلدیات کو گریڈ 20 اور اس سے نیچے کی خالی اسامیوں پر جلد سے جلد قابل اور تجربہ کار افسران کی تعیناتی کرنی ہوگی۔ کے فور اور ایس تھری سمیت دیگر جاری منصوبوں کو وقت پر مکمل کرانے کے لیے مثالی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سعید غنی دل کے غنی ہیں مگر سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے ایک ٹی وی چینل کو دبئی میں دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’سابق وزیر بلدیات کی ماہانہ دس کروڑ روپے آمدنی ہوا کرتی تھی‘‘۔ یہ آمدنی کہاں جاتی تھی اور کہاں کہاں سے آتی تھی یہ تو شرجیل میمن ہی کو معلوم ہوگا یا پھر قومی احتساب بیورو کو معلوم کرنا پڑے گا۔ بہرحال اس طرح کی آمدنی سے نئے وزیر کو بچنا پڑے گا۔ کیوں کہ یقین ہے کہ یہ رقم حکومت ہی نہیں بلکہ پارٹی کی اوپر کی سطح تک بھی پہنچائی جاتی ہوگی۔