پولیس کی کالی بھیڑیں

245

کراچی پولیس نے ضلع غربی میں 7تھانوں کے 471افسران اور اہلکاروں کوجرائم کی سرپرستی میں ملوث ہونے پر دوسری جگہ تبادلہ کردیا ہے۔ اس پر ضلعی پولیس سربراہ ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ پولیس میں کسی بھی کالی بھیڑ کو معاف نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ منظم جرائم پولیس کی سرپرستی میں کیے جاتے ہیں جن میں زمینوں پر قبضہ، منشیات فروشی اور دیگر سماجی جرائم شامل ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ جن 471 اہلکاروں کا تبادلہ کیا گیا ہے وہ کسی نہ کسی طرح جرائم کی سرپرستی میں ملوث تھے۔ لیکن ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر یہ لوگ جرائم کی سرپرستی میں ملوث تھے تو ان کا محض تبادلہ کیوں کیا گیا۔ ان کو تو گرفتار کر کے منشیات فروشوں اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے گروہ گرفتار کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اسی طرح کی ایک خبر بدین سے بھی ملی ہے کہ جہاں پولیس اہلکاروں کے گھر سے منشیات برآمد ہوئی ہیں۔ البتہ یہاں سی آئی اے نے چھاپا مار کر تین اہلکاروں کو گرفتار بھی کیا اور منشیاب بھی برآمد کرلی۔ صورت حال اتنی خراب ہے کہ کراچی کے تھانہ بریگیڈ کے ایک افسر نے گھریلو جھگڑے پر اپنی سالی کے بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر پکڑ لیا۔ اس نے جعلسازی یہ کی کہ گرفتار گھر سے کیا اور ظاہر منگھوپیر سے کی گئی۔ معاملہ صرف ایک دو مقامات کا نہیں ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران یہ فرما رہے ہیں کہ کالی بھیڑوں کو معاف نہیں کریں گے۔ لیکن ایک جگہ جرائم کی سرپرستی کرنے والوں کو دوسری جگہ بھیج کر نئے رابطے بنانے کا موقع فراہم کرنا معاف کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ بھی ایک تماشا ہے کہ اگر پولیس اہلکار فرض ادا کرے تو اس کا حشر ڈی پی او پاک پتن جیسا ہوتا ہے اور اگر کالی بھیڑ بن کر منشیات فروشوں اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کا معاون بن جائے تو محض تبادلہ۔ پھر یہ شکوہ کرنا کہ پولیس میں کالی بھیڑیں ہیں۔ یہ کالی بھیڑیں پولیس خود تو پیدا کرتی ہے۔ کسی معاملے میں کوئی اصول ضابطہ ہے یا نہیں ۔