ضرورت سے زاید بجلی مگر اندھیرا

291

گزشتہ منگل کو سینیٹ کے اجلاس میں نئی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ ن لیگی دور حکومت میں 2013ء کے بعد 12 ہزار میگاواٹ سے زاید بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی گئی۔ ملک میں اس وقت بجلی کی پیداوار ضرورت سے زاید ہے، لوڈ شیڈنگ صرف خسارے والے فیڈرز پر کی جارہی ہے۔ ضرورت سے زاید بجلی موجود ہونے کا دعویٰ گزشتہ حکومت کے وزیر اویس لغاری نے بھی کیا تھا جس کی توثیق ہورہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سابقہ حکومت کے دعوے درست تھے کہ اس نے بجلی کا بحران دور کردیا ہے۔ غنیمت ہے کہ سینیٹ میں کسی وزیر یا پی ٹی آئی کے سینیٹر نے اٹھ کر یہ نہیں کہاکہ ’’رضیہ بٹ‘‘ کے ناول نہ سنائے جائیں اور سابق حکومت کے کسی فعل کی تعریف نہ کی جائے جیسا کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے ریلوے افسران کو تنبیہ کی تھی۔ ا پنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جب بجلی ضرورت سے زاید ہے تو یہ طویل ترین لوڈ شیڈنگ کیوں ہوتی ہے۔ یہ بات صحیح نہیں کہ لوڈ شیڈنگ صرف خسارے والے فیڈرز پر کی جارہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس ملک کے بیشتر فیڈرز پر خسارہ ہورہاہے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ سندھ کے کئی شہر تو ایسے ہیں جہاں 24 گھنٹے میں دو تین گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے۔ خسارے اور فیڈرز پر ذمے داری عاید کرکے نا اہلی کو چھپایا جاتا ہے۔ پچھلی حکومت کا کہناتھا کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ یعنی چوری روکنے کی تو کوئی تدبیر نہیں کی جاتی اور اس کی زد میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو بجلی چوری نہیں کرتے اور بل بھی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔بنیادی خرابی ترسیل کے نظام میں ہے۔ اس کا مشاہدہ کراچی میں کے الیکٹرک کی کارکردگی میں کیاجاسکتا ہے۔ کے الیکٹرک کی من مانی کے خلاف جماعت اسلامی شہریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کئی بار احتجاج کرچکی ہے لیکن وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ کے الیکٹرک ہی کیا بجلی فراہم کرنے والی جتنی بھی کمپنیاں ہیں انہوں نے اندھیر مچایا ہوا ہے۔ ذرا سی بارش ہو جائے تو فیڈر ٹرپ ہوجاتے ہیں تاہم بجلی کے تعطل کے لیے بارش بھی ضروری نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کا وسیع علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔ کہا گیا کہ فلاں پاور پلانٹ بیٹھ گیا۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ بن قاسم پاور پلانٹ سے اس کی استعداد کار کے مطابق بجلی حاصل نہیں کی جارہی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ بجلی فراہم کرنے کے لیے تانبے کے تار تبدیل کردیے گئے ہیں اور کم معیار کے تار بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ کے الیکٹرک سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق ادارے کو اپنے منافع کا ایک حصہ نظام بہتر کرنے پر لگانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب اگر ایک بار پھر یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ پاکستان میں بجلی ضرورت سے زیادہ ہے تو ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، خسارے والے فیڈرز کی آڑ میں نااہلی کو نہ چھپایا جائے۔ خسارے والے فیڈرز کی وضاحت بھی ضرور کی جائے کہ اس سے کیا مطلب ہے۔ اس کے ساتھ ہی سابق حکومت پر بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہ کرنے کا الزام بھی واپس لے لینا چاہیے۔ عدالت عالیہ سندھ میں کے الیکٹرک کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر توہین عدالت سے متعلق ایک درخواست بھی زیر سماعت ہے۔ اضافی بجلی کے باوجود اس کی قیمت میں اضافے کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں ۔