ایران اور ترکی کے بعد پاکستان نشانہ

322

امریکی عوام اور سیاسی قوتوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں ان کے ہاں ایک ’’گورباچوف‘‘ پیدا ہو گیا ہے۔ جو امریکا کو کسی برے انجام کی طرف لے جائے گا۔ میخائل گورباچوف سوویت یونین کے آخری حکمران تھے جنہوں نے اقتصادی بدحالی اور دیوالیہ پن کا شکار سوویت یونین پر سے کئی قوموں اور ریاستوں کا بوجھ اتار کر اسے دوبارہ روس بنایا تھا۔ سوویت یونین کے اس حال اور مقام تک پہنچنے میں گورناچوف سے زیادہ ان کے پیش رو حکمرانوں کا دخل تھا۔ ٹرمپ کے برعکس گورباچوف ایک معتدل مزاج اور صلح جو انسان تھے جنہوں نے ہلاکت خیز ایٹمی ہتھیاروں کی حامل سپر طاقت کے زوال کو آسان اور پرامن بنایا۔ امریکی صدر ٹرمپ اپنی افتاد طبع کے باعث امریکا کا عالمی وزن اور مقام گھٹا رہے ہیں۔ وہ امریکا کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود امریکی عوام میں ان کے اس رویے کے خلاف بے چینی بڑھ رہی ہے اور ان کے مواخذے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔
ٹرمپ اپنی بڑھتی ہوئی داخلی مشکلات کا انتقام مسلمان عوام اور طاقتور مسلمان ملکوں سے لینے کی راہ پر چل رہے ہیں۔ اس وقت کم ازکم تین اہم ترین مسلمان ملکوں کے ساتھ ٹرمپ کا تنازع انتہا تک پہنچا ہے۔ تینوں ملکوں میں ٹرمپ معاشی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ترکی مسلمان دنیا کی اُبھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اردوان کی حکمرانی نے اس ملک کو سیاسی استحکام بھی عطا کیا ہے مگر امریکا ترکی کے ساتھ کھلی مخاصمت کی راہ پر چل رہا ہے۔ دوسال قبل ترکی میں ناکام بغاوت کے پیچھے امریکا ہی تھا اور اس بغاوت کے ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن امریکیوں کے مہمان ہیں۔ اس بغاوت نے ترکی اور امریکا کے تعلقات کی دیوار میں شک کی دراڑیں ڈال رکھی ہیں جو بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اب ناکام بغاوت میں ملوث ایک پادری کی گرفتاری کو بہانہ بنا کر امریکا نے ترکی سے درآمد کیے جانے والے اسٹیل اور المونیم پر محصولات بڑھا دیے ہیں۔ اس طرح کی دوسرے اقدامات کی وجہ سے ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر ڈالر کے مقابلے میں گر رہی ہے۔ جس سے ترکی کی مستحکم ہوتی ہوئی معیشت لڑکھڑانے لگی ہے۔ ترکی نے بھی جواب میں امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ کم وبیش انہی حالات کا سامنا ایران کو ہے۔ ایران کے ساتھ امریکی کشیدگی کی پوری تاریخ ہے مگر ٹرمپ اس کشیدگی کو انتہا تک پہنچا رہے ہیں۔ ایران یورینیم کی افزودگی بند کرچکا ہے مگر امریکا تب بھی ایران کا اقتصادی مقاطع ختم کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں تک ایک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکا اس ماہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر براہ راست حملہ کر سکتا ہے۔ امریکا یورپی یونین کو بھی ایران کے خلاف اقدامات پر مجبور کر رہا ہے۔ اس فہرست کا تیسرا ملک پاکستان ہے جس پر امریکا ہمہ جہتی یلغار کیے ہوئے ہے۔ افغانستان میں اپنی سترہ سالہ ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان کو طاقت سے کچل کر یا مذاکرات کی میز پر بٹھا کر اسے فاتح کا ٹائٹل عطا کرے۔ پاکستان کے پاس ایسا کوئی چھومنتر نہیں کہ وہ ایک بڑی اور سرکش ملیشیا کو جو ایک عرصے تک حکومت رہی ہو کالر سے پکڑ کر میز پر بٹھائے یا پھر کوئی ایسا ہتھیار نہیں جسے استعمال کرکے ہزاروں جنگجوؤں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ یہ دونوں باتیں ممکن ہوتیں تو امریکا کب کا کرچکا ہوتا۔ اسی لیے امریکا پاکستان سے ناراض ہو کر اس کی معیشت کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے شہریوں اور سفارت کاروں کے خلاف رنگ برنگی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور ڈومور کے حالیہ اصرار پر ایک تنازع اس کشمکش کا نیا موڑ ہے۔
ترکی، ایران اور پاکستان مسلمان دنیا کے تین قابل ذکر اور نمایاں ملک ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی داخلی مشکلات کم کرنے اور رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لیے ان ملکوں کے خلاف مختلف انداز سے مہم جوئی کی طرف جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ کہ یہ تینوں ملک رفتہ رفتہ امریکا سے دور ہو کر چین اور روس کے قریب جا رہے ہیں۔ امریکی عوام کا فرض ہے کہ وہ ٹرمپ کو امریکا کا گورباچوف بننے سے روکیں اور امن عالم کو تباہ کرنے کے شوق کے آگے بند باندھیں۔