احتجاج رنگ لے آیا

361

پاکستانی عوام کے پرزور احتجاج پر ہالینڈ کے ملعون سیاست دان گیرٹ ولڈرز نے توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیا۔ یوں تو پورے عالم اسلام میں بے چینی پھیل گئی تھی لیکن پاکستان میں جس شدت کا احتجاج دیکھنے میں آیا ویسا کسی اور مسلم ملک میں نظر نہیں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ برعظیم پاک و ہند کا مسلمان زیادہ جذباتی ہے اور اپنے رسولؐ کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا اس کے لیے وہ جان قربان کرنے اور جان لینے کو تیار رہتا ہے۔ غازی علم الدین اور عبدالقیوم شہید جیسے کردار اب بھی موجود ہیں۔ جرمنی میں زیر تعلیم پاکستانی نوجوان عامر چیمہ کا نام بھی اس فہرست میں جگمگا رہا ہے۔ شان رسولؐ میں گستاخی کے معاملات رہ رہ کر اس لیے سامنے آتے ہیں کہ دشمنان اسلام یہ آزمانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کتنی حمیت برقرار ہے اور کیا ان کا خون ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ جس قوم میں دینی غیرت و حمیت ختم ہوجائے وہ آسانی سے دشمن کا شکار بن جاتی ہے۔ مغربی تعلیم کے ذریعے مسلمانوں میں الحاد پھیلانے کی سازش پرانی ہے لیکن پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی اور علمائے حق اور مدارس اس کا توڑ کرتے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق ہالینڈ کے سفیر نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ہونے کی اطلاع دی ہے۔ اﷲ کے کرم سے معاملہ ٹل گیا پھر بھی اس ایشو پر بات کریں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی زور دیا ہے کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ میں بات کی جائے اور ایسی قانون سازی کی جائے کہ ہمیشہ کے لیے اس فتنے کی بیخ کنی ہوجائے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس قسم کی شرارتوں کے پیچھے صہیونی ذہن کار فرما ہے۔ مقابلہ منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملعون ڈچ رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈرز نے کہاکہ ’’لوگوں کی زندگی کو لاحق خطرات اور قتل کی دھمکیوں کے سبب گستاخانہ مقابلے نہیں کروارہا‘‘۔ یعنی وہ اب بھی اپنی اس حرکت پر شرمندہ نہیں ہے اور دوسروں کی زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ وہ یہ حرکت پہلے بھی کرچکا ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے۔ کوئی بھی غیرت مند مسلمان ا پنی جان پر کھیل سکتا ہے۔ ہالینڈ کی حکومت تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ آزادئ اظہار کا معاملہ ہے۔ دوسری طرف جب کوئی یورپی یا امریکی فرضی ہولوکاسٹ کی حقیقت کو چیلنج کرتا ہے تو اسے آزادی اظہار کا حق نہیں کہا جاتا بلکہ سزا دے دی جاتی ہے کیونکہ اس سے یہودی ناراض ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں ہالینڈ کے سفیر کو نکالنے اور اس سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا جارہاتھا جس کی وجہ سے ہالینڈ کی حکومت نے اپنا موقف بدلا ہے۔ اس معاملے میں عرب مالک کا رویہ مایوس کن رہا ہے۔ حالانکہ ہالینڈ کی ڈیری مصنوعات کی کھپت سب سے زیادہ عرب مالک میں ہے۔ وہ اگر تجارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دیتے تو یہ مسئلہ بہت پہلے نمٹ جاتا۔ اب عمران خان کی حکومت بھی سکون کا سانس لے گی ورنہ پاکستان میں جو شدید رد عمل ہونے والا تھا اس کی وجہ سے حکومت بھی مشکل میں پڑتی۔ اسلام آباد میں دھرنے دینے کا راستہ تو خود عمران خان دکھاہی چکے ہیں اور تحریک لبیک کا دھرنا ختم کرانے کے لیے بھی فوج نے مداخلت کی تھی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے بہت صحیح کہاہے کہ یہ معاملہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے۔ مغرب کو مسلمانوں کے جذبات کا احساس نہیں ہے۔