عمران خان کی طویل دورہ جی ایچ کیو

213

وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سمیت گزشتہ جمعرات کو جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں 8 گھنٹے گزارے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ملاقات ضرورت سے زیادہ ہی طویل تھی۔ تاہم یہ ایک اچھا اقدام تھا جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ فوج اور سول حکومت ایک ہی پیج پر ہیں اور بقول حکومتی ترجمان فواد چودھری، ایک ہی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ فوج نے بھی یقین دلایا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے۔ گو کہ یہ عسکری یقین دہانی بھی کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم نئی حکومت کو اس کی زیادہ ضرورت ہے ورنہ تو فوج ہمیشہ ہی حکومت کے آگے پیچھے ہوتی ہے۔ فواد چودھری کے مطابق سپہ سالار پاکستان نے یقین دلایا ہے کہ فوج سول حکومت کے ماتحت ہے اور اس کے احکامات پر عمل کیا جائے گا۔ عمران خان نے بھی فوج کو یقین دلایا ہے کہ اسے تمام وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ اس سے ایسا لگتا ہے جیسے سابقہ حکومتوں نے فوج کو اس کے مطلوبہ وسائل مہیا نہیں کیے تھے۔ حالانکہ پاکستان میں قائد اعظم اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد کوئی بھی سول حکومت ایسی نہیں آئی جس نے فوج کے طلب کردہ وسائل فراہم کرنے میں آنا کانی کی ہو۔ اور پھر تو جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج نے قوم کے تمام وسائل اپنے قبضے میں لے کر مسائل عوام کے لیے چھوڑ دیے۔ اس ملاقات کے موقع پر فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے سول وزیراعظم کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ عمران خان کو جی ایچ کیو میں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ پاکستان کا ہر وزیراعظم فوج سے بریفنگ لیتا رہا ہے اور کئی معاملات میں یہ ضروری بھی ہے۔ خود امریکا، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک کے حکمران اہم معاملات پر فوجی قیادت سے بریفنگ لیتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی مسائل ایسے ہیں جن سے فوج نمٹ رہی ہے مثلاً دہشت گردی کے خلاف مہم، آپریشن رد الفساد اور پڑوسی ممالک سے تعلقات خاص طور پر کشمیر کے پیش منظر میں بھارت سے معاملات، افغانستان کی صورتحال، ایران اور امریکا سے روابط وغیرہ۔ خارجہ پالیسی کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر فوج کی گرفت ہے اور امکان ہے کہ حساس معاملات میں سول حکومت کو بار بار فوج سے بریفنگ لینا ہوگی گو کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میز پر مُکے مار مار کر بڑے طمطراق سے کہاہے کہ اب خارجہ پالیسی وزارت خارجہ ہی میں بنے گی۔ خدا کرے کہ سول ملٹری تعلقات نہ صرف خوشگوار رہیں بلکہ مزید مستحکم ہوں۔ ماضی میں عمران خان فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کا شکوہ کرتے رہے ہیں۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ حزب اختلاف جی ایچ کیو میں 8 گھنٹے گزارنے پر یہی الزام الٹ نہ دے۔ عمران خان اسلام آباد میں اپنے تاریخی دھرنے میں اعلیٰ فوجی حکام سے رابطے میں رہے ہیں اور امپائر کی انگلی اٹھنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے حزب اختلاف فوج کے کردار پر انگلی اٹھاتی رہی ہے اور عمران خان کی کامیابی کو اسٹیبلشمنٹ کا کارنامہ قرار دیتی رہی ہے۔ لیکن ہارنے والے تو الزامات لگاتے ہی رہتے ہیں۔ اب جی ایچ کیو میں طویل حاضری پر بھی تنقید، اعتراضات اور تبصرے سامنے آتے رہیں گے لیکن عمران خان فوج کی پشت پناہی سے اپنا کام کرتے رہیں۔ اس طرح کوئی ممکنہ خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ مناسب ہوتا کہ عمران خان جی ایچ کیو حاضری دینے سے پہلے قائد اعظم کے مزار پر بھی حاضری دے لیتے تاکہ ان کی سمت کا واضح تعین ہوجاتا۔ لیکن اس حوالے سے عمران خان کا کہناہے کہ پہلے ضروری کام نمٹالوں پھر مزار قائد پر حاضری بھی دے لوں گا۔ لیکن کراچی آکر مزار قائد پر حاضری دینے اور واپس جانے میں زیادہ سے زیادہ 8 گھنٹے ہی لگتے۔ اس طرح شاید عمران خان کو یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ فوج کے بارے میں قائد کے نظریات کیا تھے۔ قائد اعظم نے واضح کیا تھا کہ فوج کا کام سیاست میں دخل دینا نہیں بلکہ سول حکومت کی اطاعت کرنا ہے۔ تاہم فوج کہتی تو یہی ہے۔ اب یہ سوال تو اٹھے گا کہ 8 گھنٹے کن معاملات پر گفتگو ہوتی رہی۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے اس دورے کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے جیسے یہ غیر ملکی دورہ ہو۔