اصولی تنقید کے لیے تھوڑا صبر اور کچھ وقت چاہیے

274

 

شحزب اختلاف کی چند ایک جماعتوں اور میڈیا کے ایک حصے کو یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہیے کہ وقت کا دھارا بہہ چکا ہے اور وہ جس بات کو دیوانے کی بڑ قرار دے رہے تھے حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ عمران خان کو وزیر اعظم کی شیروانی کا ایک بٹن نہ دینے جیسے اعلان اور دعوے کرنے والوں کو یہ تلخ حقیقت قبول کرنا چاہیے کہ عمران خان شیروانی پہن چکے ہیں اور اب انہیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے کئی دن ہو چکے ہیں۔ وہ جسے انہونی اور حادثہ سمجھتے تھے وہ رونما ہو چکا ہے۔ یوں لگتا ہے پوری طرح وہ اس حقیقت کو قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا معاملہ تو قابل فہم ہے کہ ان کا کام ہی مخالفت اور تنقید ہے اور اپوزیشن کی صفوں میں قابل ذکر طاقت وہ ہے جسے عمران خان کی سیاست نے براہ راست زک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر میڈیا کا ایک حصہ خواہ مخواہ زخم خوردہ اور افسردہ دکھائی دے رہا ہے۔
حکومت کو قائم ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اس اپنے دعوؤں اور کارکردگی کا حساب مانگا جانے لگا ہے۔ میڈیا کا یہ حصہ سوال پوچھتا ہے کہ اگر فلاں کام کرنا تھا تو پھر دعویٰ ہی کیوں کیا تھا؟۔ دعوے اور وعدے کو پرکھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے مگر منقا زیر پا صحافی یہ وقت دینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ اپنی کہانیوں اور افسانوں سے ایک مخصوص سیاسی گروہ کے سوشل میڈیا پیجز کے لیے مواد فراہم کرنے کی مہم چلارہے ہیں۔ اس رویے سے ایک ذاتی غصہ اور انتقام ٹپک رہا ہے۔ یوں تاثر مل رہا ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ جو ماضی قریب کی حکومت سے قربت اور ہمدردی رکھتا تھا محض حکومت کو ناکام اور حکومتی ٹیم کو ناتجربہ کار ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے اور یوں ملک کو ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘ کے احساس زیاں اور احساس ندامت کا شکار کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کا مطلب گالم گلوچ اور اخلاقی بندشوں اور حدود وقیود سے آزاد دنیا ہے۔ سوشل میڈیا کی تازہ صورت حال یہ ہے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا رضاکاروں یا حامیوں نے چند برس قبل اس دنیا میں اگر طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا تو مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیائی فوج اسے بھونچالِ بدتمیزی بنا رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز سے منسوب اور ان کے ہمدردوں کے سوشل میڈیا پیجز نے فوج، عمران خان ان کی بیگم کے نام پر وہ اودھم مچار رکھا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس کی ابتدا پی ٹی آئی نے کی تھی تو اس کو انتہا پر مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیائی فوج پہنچا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر مسلم لیگ ن کی قیادت تو اپنے حامی اخبار نویسوں کے ذریعے اپنا تعارف مدتوں مشرقی روایات کے امین اور میڈان پاکستان کے طورپر کراتی رہی ہے۔ ان کے صحافتی مداح جب بے نظیر بھٹو کو مغرب زدہ کہتے تو وہیں میاں نوازشریف کو دیسی بابو اور مشرقی روایات کا علم بردار قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ خدا جانے وہ سب خاکے اور تعارف کہاں چلے گئے؟۔ میاں نواز شریف اور عمران خان اس بے لگام فوج کی براہ راست قیادت نہیں کرتے مگر جو ماحول بن چکا ہے اس میں اب کوئی قید اور رکاوٹ باقی نہیں۔ اس بے لگام ہجوم کو جو معزز صحافی غیر متوازن تجزیوں اور خبروں سے ایندھن دے گا اس کا مطلب گندگی کے کنویں میں چھلانگ لگانا ہے اور پھر وہ دامن کو گندگی سے بچا نہیں پائے گا۔ یہ رویہ قطعی عجیب ہے کہ ماضی قریب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں جو موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی خشک ہوگئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ابھی اپنے پیش رو حکمرانوں کے اقدامات کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے۔ گردشی قرضوں نے ملک کی کمر جھکائی ہی نہیں توڑ کر رکھ دی ہے اور ملک کے تمام معاشی مسائل کی جڑ یہی قرضے ہیں جن میں گزشتہ چند برسوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے۔ اس معاشی اُلجھن سے نکلنے کے لیے حکومت کو کچھ مہلت درکار ہے۔ اسی طرح بگڑے ہوئے سسٹم کو کسی ڈھب پر لانے کے لیے بھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ حکومت ابھی تشکیل کے مراحل میں ہے کہ اس سے حساب مانگا جانے لگا ہے۔ یہ سوچ موجودہ حکومت کے اعصاب شل کرکے اس کا نقش قائم ہونے سے روکنے سے تعلق رکھتی ہے۔
عمران خان نے ملک میں جمہوریت کے حقیقی معیارات کی بات کرکے عام آدمی کو جمہوریت کے حوالے سے باخبر اور حساس بنایا ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ اب چند اصطلاحات، علامتوں اور عمارتوں کو جمہوریت سمجھنے والی اپوزیشن عمران خان کو مزید اچھی جمہوریت کا سبق یاد دلا رہی ہے۔ جس کا ثبوت چیرمین احتساب بیورو کی وزیر اعظم سے ملاقات پر پیپلزپارٹی کے راہنما سعید غنی کا یہ تبصرہ ہے کہ وزیر اعظم کو اپنے ہیلی کاپٹر کیس کا فیصلہ ہونے تک یہ ملاقات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات آئیڈیل جمہوریت کے اصولوں کے قطعی مطابق ہے۔ سعید غنی کی اس بات سے اندازہ ہورہا ہے کہ اب ملک کی سیاسی جماعتیں حقیقی اور آئیڈیل جمہوریت کے قیام کی قائل ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت پر تنقید اور احتساب اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا کی ذمے داری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میڈیا کو ایک فریق بن کر واضح لائن لے کر بیٹھنا نہیں چاہیے کہ ان کی خبروں، تجزیوں اور ٹاک شوز سے ذاتی زخم رستے ہوئے محسوس ہوں۔ میڈیا کا کام حکومت کے فیصلوں کی بنیاد پر حمایت یا مخالفت ہونا چاہیے۔ حکومت اب میدان عمل میں ہے۔ ہر تماشائی کی نظریں اس پر مرکوز ہیں۔ وہ اچھی کارکردگی دکھائے گی تو داد وتحسین پائے گی اور ماضی کی روایتوں کا تسلسل بنے گی تو اس کا مقام اور انجام بھی ماضی والوں کے ساتھ اور انہی جیسا ہوگا مگر حکومت کو کارکردگی دکھانے کے لیے چار دن کا صبر وحوصلہ بھی ضروری ہے۔