اعتزاز صدر منتخب ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کے متوازن کردار کی بازگشت شروع ہوجائیگی

261

کراچی (تجزیہ: محمد انور) 4 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے حوالے سے سیاسی حلقے آصف علی زرداری کی دو ٹوک الفاظ میں کہی گئی اس بات کو کہ ’’اعتزاز احسن صدر کا انتخاب جیتیں گے ‘‘غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ صدر کے انتخاب کے لیے 4 ستمبر کو ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین ووٹ ڈالیں گے اس مقصد کے لیے پولنگ مذکورہ ایوانوں میں ہوگی۔ موجودہ صدر ممنون حسین کی مدت 9 ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ صدر کے لیے اس وقت 3 قابل ذکر امیدوار میدان انتخاب میں ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف الرحمن علوی، پاکستان پیپلز پارٹی کے بیرسٹر اعتزاز احسن اور متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن شامل ہیں۔ اب تک کی صورتحال کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے ڈاکٹر عارف علوی اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کے درمیان ہے۔ جس کے لیے دونوں پارٹیوں کے امیدوار سرگرم ہیں۔ صدر مملکت بننے کی خواہش لے کر جے یو آئی اور ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی سرگرم نظر آتے ہیں لیکن ان کی اس بات سے کہ ’’متحدہ اپوزیشن کی طرف سے مجھ پر اعتماد کیا گیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ ‘‘پاکستان پیپلز پارٹی اپنا امیدوار دستبردار کرے گی لیکن اگر پی پی اعتراز احسن کو دستبردار نہیں کراتی تو اس کے معانی یہ ہیں کہ حکومت کو رضا مندی کے ساتھ کامیابی کے مواقع دیے جارہے ہیں’’ مولانا خود اپنی جیت کا یقین نہیں ہے‘‘۔ جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو نہ صرف اپنے نامزد امیدوار اعتزاز احسن کو یقین ہے بلکہ وہ اس کا برملا اظہار بھی کررہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا کہ آئندہ صدر پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن ہونگے۔ آصف علی زرداری کو اعتزاز احسن کی کامیابی کا شاید اس لیے بھی یقین ہے کہ وہ خود اس انتخاب میں اپنے امیدوار کی فتح کے لیے اپنا’’ماہرانہ و روایتی ‘‘ کردار ادا کررہے ہیں جبکہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی زیادہ تعداد میں موجودگی بھی ان کی توقع کا باعث ہے۔ مسئلہ حکومتی پارٹی کی انا کا بھی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کی موجودہ مصروفیات کو دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ وہ اپنے صدارتی امیدوار عارف علوی کی کامیابی کے لیے اعتماد کے باعث اس طرح کی کوشش نہیں کررہے جیسے اب تک انہوں نے دیگر عہدوں کے حصول کے لیے کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے یہ بھی سمجھ سے بالا ہے۔ مگر سب ہی لوگ دیکھ رہے ہیں کہ عارف علوی کراچی کے ایم پی اے حلیم عادل شیخ اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے ساتھ ووٹ مانگنے کے لیے مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کے دباؤ کی وجہ سے اپنے صدارتی امیدوار کی کامیابی کے لیے اس طرح کی جدوجہد نہیں کررہی جیسے اسے کرنی چاہیے تھی جبکہ پیپلز پارٹی کو اپنا صدر اس لیے بھی منتخب کرنا ہے تاکہ اس کے رہنماؤں خصوصاً آصف علی زرداری پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات میں مدد مل سکے۔ صدر بن کر یہ کام اعتزاز احسن سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ قانونی اور آئینی ماہرین بھی ہیں۔ بہرحال اگر کسی بھی وجہ سے عارف علوی کو شکست ہوگئی اور اعتزاز احسن کامیاب ہوگئے تو صدارتی انتخاب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے متوازن کردار کی بازگشت شروع ہونے کا واضح امکان ہے۔ یادرہے کہ مولانا فضل الرحمن کے حق میں مسلم لیگ نواز اپنے نامزد کردہ امیدوار امیر مقام کو دستبردار کراچکی ہے۔