پاکستانی دفتر خارجہ کی پسپائی

224

ابھی امریکی وزیر خارجہ پومپیو سے عمران خان کی گفتگو کا تنازع چل ہی رہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا کہ گزشتہ جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر کے دوبار رابطہ کرنے پر بھی بات کرنے سے انکار کردیا جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ عمران خان جس وقت صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے اس وقت فرانسیسی صدر کا ٹیلی فون آیا تھا۔ ان کو جواب دیا گیا کہ وزیر اعظم پاکستان اس وقت مصروف ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بعد میں شاہ محمود قریشی کے اصرار پر کال وصول کرلی گئی۔ فرانس اور پاکستان میں تعلقات کشیدہ نہیں ہیں لیکن اس عمل کو فرانسیسی حکومت نے پسند نہیں کیا ہوگا اور ممکن ہے کہ فرانسیسی صدر اسے اپنی توہین سمجھیں۔ یہ رویہ تو امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ اختیار کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس میں غلطی فرانسیسی حکومت اور صدر کی ہے۔ دو ممالک کے رہنماؤں میں گفتگو اور ملاقات کا ایک طریقہ کار طے ہے جس کے مطابق ایسے رابطے وزارت خارجہ کے توسط سے ہوتے ہیں جو اس کا اہتمام کرتا ہے اور گفتگو کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ یہ طریقہ کار فرانسیسی صدر کے علم میں بھی ہوگا اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے علم میں بھی۔ لیکن کیا یورپ و امریکا کے حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں بلکہ ان کا باجگذار ہے؟ اگر ایسا خیال ہے تو اس کے ذمے دار پاکستان کے حکمران اور پاکستانی حکومتیں ہیں جو یورپ و امریکا کے حکمرانوں کے سامنے بچھے جاتے تھے اور براہ راست رابطے کرنے کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ پاکستان کے بارے میں شاید یہ تاثر ہے کہ یہ ایک مقروض اور پسماندہ ملک ہے چنانچہ کوئی بھی اس پر رعب جما سکتا ہے۔ پاکستان کی غیرت و حمیت کو قربان کرنے میں سابق حکمرانوں کا بڑا دخل ہے۔ پاکستان کے کمانڈو جنرل پرویز مشرف گالف کھیلتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے حکم پر سر جھکا دیتے ہیں ۔ فوجی آمروں کو تو کسی سے مشورے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ خود کو عقل کل اور ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے لیکن سول حکمرانوں کو غیر ملکی رابطوں کے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔ عمران خان تو حکومت میں ابھی نئے ہیں لیکن ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو تجربہ کار ہیں ، انہیں عمران خان کو بھی اس طریقہ کار سے آگاہ کردینا چاہیے۔ ایسا ہوتا تو امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو اور پھر دفتر خارجہ کی غلط بیانی کا سوال نہ اٹھتا جو اس نئی حکومت کے لیے بلاوجہ کا تنازع بن گیا ہے اور دفتر خارجہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ یہ بھی پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ دفتر خارجہ اپنے ہی دعوے سے پھر گیا ہے۔ بڑے اصرار سے کہا گیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ نے عمران سے گفتگو میں دہشت گردوں اور ان کے کیمپوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ جب کہ امریکی دفتر خارجہ مصر تھاکہ ایسی بات ہوئی ہے۔ آخر کار امریکا ہی سے اس گفتگو کا ریکارڈ بھیجا گیا تب شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر پہلے ہی بتا دیا جاتا کہ وزیر خارجہ کی بات وزیر خارجہ ہی سے ہوسکتی ہے اور اس گفتگو کا ریکارڈ بھی دفتر خارجہ کے پاس ہوگا تو معاملہ خراب نہ ہوتا۔ لیکن و زیر اعظم پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ کا ٹیلی فون ریسیو کر کے پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری طرف اگر وہ اپنے ہم منصب فرانسیسی حکمران کا فون وصول کر کے خود کہہ دیتے کہ اس وقت وہ مصروف ہیں، بعد میں بات کریں گے اور اس کے لیے دفتر خارجہ سے بھی وقت لے لیا جائے تو ایک اچھا تاثر جاتا۔ امریکی وزیر خارجہ 5ستمبر کو چند گھنٹے اسلام آباد میں رک کر بھارت جائیں گے اور ان کے دورے کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ بھارت پر دباؤ ڈالا جائے وہ روس سے اسلحہ یا طیارے نہ خریدے۔ پاکستان تو راستے میں پڑ رہا ہے اور امکان یہی ہے کہ وہ چند گھنٹے کے قیام میں وہی بات دہرائیں گے جو انہوں نے ٹیلی فون پر کی تھی۔ امریکا پہلے بھی پاکستان کا دوست نہیں تھا لیکن دوستی کا نقاب ضرور چڑھا رکھاتھا مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ نقاب بھی اتار پھینکا اور کھل کر دشمنی پر آمادہ ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ امریکا کو دوست کہنے والوں کی آنکھیں کھل جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ جمعہ کو ٹی وی اینکروں سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ امریکا کو بات کرنی ہے تو عزت سے کرے، واشنگٹن سے لڑ نہیں سکتے لیکن کوئی غلط بات نہیں مانیں گے، تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں،ملکی مفاد کے خلاف ہونے والے معاہدے منسوخ کردیں گے۔ یہ ایک معقول بات ہے۔ پاکستان بہر حال ایک آزاد و خود مختار ملک ہے اور دوسرے ممالک کو بھی اس کی خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ واشنگٹن سے لڑنے کی ضرورت نہیں مگر اس کے سامنے سر جھکانے کی بھی ضرورت نہیں ۔ اچھے تعلقات ہر ملک خاص طور پر پڑوسی ممالک سے رکھنا ضروری ہیں اور اب تو گزشتہ 17برس سے امریکا بھی افغانستان پر قبضہ کر کے پاکستان کے پڑوس میں آبیٹھا ہے گو کہ زبردستی کا پڑوسی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارک پومپیو پر واضح کردینا چاہیے کہ افغانستان میں امریکا کے قدم جمانے میں پاکستان مزید کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ عجیب بات ہے کہ خود امریکا تو افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے سرتوڑ کوشش کررہا ہے اور پاکستان سے کہتا ہے کہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے۔