آرام گاہوں پر چھاپے

212

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے کراچی کے دورے کے دوران ضیا الدین اسپتال میں ’’زیر علاج‘‘ اربوں روپے فراڈ کے ملزم پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل میمن کے کمرے میں اچانک چھاپا مارا تو ان کے کمرے میں شراب اور منشیات برآمد ہوئیں۔ چیف جسٹس نے ضیا الدین اسپتال کے سب جیل قرار دیے گئے کمرے کا معائنہ کیا اور شراب اور منشیات کی موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے جناح اسپتال میں آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے بیٹے غنی مجید کے کمروں کا بھی معائنہ کیا۔ اسے اتفاق کہا جائے یا اس کا تعلق کسی سیاسی معاملے سے جوڑا جائے لیکن یہ ہے اتفاق کہ چیف صاحب کی زد میں آنے والے تینوں لوگ زرداری صاحب سے تعلق رکھتے ہیں اور زرداری صاحب پر صدارت کے امیدوار کے حوالے سے خاصا دباؤ ہے۔ اگر اسے بھی اتفاق سمجھا جائے تو بہتر ہوگا کہ سندھ کے اعلیٰ افسران کو وفاق نے تبدیل کردیا ہے او وفاق کے فیصلے پر سندھ کے حکمران خاصے برہم ہیں۔ ان ہی اتفاقات کے ساتھ یہ خبر بھی شایع ہوئی ہے کہ منی لانڈرنگ الزامات کے کیس میں ملک ریاض کے داماد کی ضمانت ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس نے زرداری صاحب کے ساتھیوں کی آرام گاہوں پر چھاپے مار کر جس چیز کا انکشاف کیا ہے وہ آج پہلی مرتبہ نہیں ہورہی۔ خود زرداری صاحب نے اس قسم کا آرام کئی سال تک کیا۔ بہت سے سیاسی قیدی یہ آرام کرتے رہے ہیں۔ یہ پہلے بھی ہوتا تھا پورے ملک میں اب بھی ہوتا ہے اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ چیف صاحب نے اڈیالہ میں ایسا چھاپا کیوں نہیں مارا۔ کیا وہاں یہ سہولیات اور آرام نہیں ہے یا وہاں حقیقتاً تکلیف دہ صورتحال ہے۔ شرجیل میمن کے کمرے سے ملنے والی بوتلوں میں بظاہر شراب تھی لیکن پاکستانی عدالتی نظام کے مطابق اس کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ شراب تھی یا نہیں اور ثبوت آنے تک جس طرح تحریک انصاف کے رہنما گنڈاپور صاحب کی بوتل شہد کی بوتل بن گئی تھی اسی طرح یہ بوتل بھی کسی دوا کی بوتل بن سکتی ہے۔ اور سابق صوبائی وزیر اور سینئر رہنما ناصر حسین شاہ نے تو رپورٹ بھی دے دی کہ بوتلوں میں شہد اور زیتون کا تیل تھا۔ ٹیسٹ کرایا جائے حقائق سامنے آجائیں گے۔ اس سارے معاملے میں ایک سوال سامنے آیا ہے جو ہر ایک کے ذہن میں آنا چاہیے اس کا اشارہ آصف زرداری صاحب نے دے بھی دیا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہزاروں مقدمات کی جانب کون توجہ دے گا۔ اور کیا اس ایک چھاپے سے یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مشہور زمانہ انکاؤنٹر اسپیشلسٹ راؤ انوار صاحب کو ان کے گھر میں سب جیل قرار دے کر رکھا گیا۔ وہاں کون چھاپا مارتا کہ اندر کیا ہورہاہے۔ در اصل یہ سب جیل قرار دینے کا قانون ہی غلط ہے۔ اس کا فائدہ صرف با اختیار لوگ اور طاقتور مجرم ہی اٹھاتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دکان یا مسجد سے گھڑی چرانے والا یا ہوٹل سے دو روٹی چرانے والا جیل میں طبیعت بگڑ جانے پر جناح اسپتال یا کسی سرکاری اسپتال میں داخل کردیا جائے۔ اس کے لیے تو کوئی سب جیل نہیں ہوتی بلکہ جیل ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ یہ مراعات راؤ انوار، آصف زرداری، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم وغیرہ کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت ہوتی تو رائے ونڈ فارم آج کل میاں نواز شریف کی سب جیل ہوتا۔ میڈیا میں دبے دبے لفظوں میں چیف جسٹس کے چھاپوں پر بات ہورہی ہے، کوئی کھل کر تو کچھ نہیں کہہ سکتا بس یہ سوال اٹھایا ہے کہ چیف جسٹس کے چھاپے صحیح یا غلط ۔۔۔ ایک تو جہ ہم بھی دلانا چاہیں گے کہ اسپتال علاج کے لیے ہوتا ہے شراب اور منشیات کے لیے نہیں۔ یہاں اگر چھاپا مارا گیا ہے تو بڑا اچھا کیا گیا لیکن جو ادارہ جرائم کی روک تھام کرتا ہے یعنی پولیس اس کے اسٹیشن تو پورے ملک میں ضیا الدین اور جناح اسپتال کے سب جیل قرار دیے گئے کمرے سے زیادہ غلط دھندوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک شراب پر کیا موقوف تھانوں میں کیا نہیں ہوتا۔ یہ تھانیدار اکا دکا کو چھوڑدیں دن بھر شکار تلاش کرتے ہیں ان کی نشاندہی کرتے ہیں شام کو ان کے کارندے یہ شکار اٹھالاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں تو ذرا مشکل ہے لیکن یہ کام ہوتا رہتا ہے۔ البتہ میڈیا کے خوف سے بہت احتیاط کی جاتی ہے لیکن 80 فی صد دیہات والے ملک کے تھانوں میں کوئی وڈیرہ، جاگیردار یا چودھری بند نہیں ہوتا غریب آدمی ہی بند کیا جاتا ہے اسی کے خاندان کو اٹھالایا جاتا ہے۔ امید ہے چیف صاحب میاں نواز شریف سے ملنے بھی اچانک پہنچیں گے اور ملک بھر کے پولیس تھانوں پر بھی چھاپے ماریں گے کہیں نہ کہیں سے تو شہد اور زیتون کی بوتلیں ملیں گی۔ کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تھانوں میں کیا ہوتا ہے یہ جگہ تو لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے بنائی گئی تھی صرف کراچی کے دو اضلاع کی گزشتہ چند روز کی رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار کے قریب پولیس افسران اور اہلکاروں کو منشیات فروشوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد سے تعاون کے الزام میں ٹرانسفر کردیا گیاہے۔ اس رپورٹ میں بھی دو تشویشناک امور ہیں ایک تو یہ کہ صرف 2اضلاع میں ایک ہزار کے لگ بھگ پولیس اہلکار جرائم پیشہ عناصر کے معاون نکلے ہیں اس اعتبار سے پورے ملک کی پولیس کا آپریشن کرنا ہوگا۔ بہر حال یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کو اسپتالوں میں چھاپے کیوں مارنے پڑے اور کیا یہ چھاپے ہر جگہ جاری رہیں گے۔ صدارتی انتخاب سے ان کا کوئی تعلق تو نہیں ہے؟۔