کیا امریکا سے پرانا رشتہ ختم ہو گیا۔۔۔؟

289

وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے امریکا کی جانب سے 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی امداد روکے جانے کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا نے امداد نہیں ہمارا پیسہ روکا ہے ۔ امریکا نے جو رقم روکنے کا اعلان کیا ہے یہ وہ رقم ہے جو امریکا کے کہنے پر پاکستان نے خرچ کر دی تھی یہ امریکا پر واجب الادا رقم ہے چونکہ اس کی وضاحت ضروری تھی اس لیے میں نے بات کی ہے ۔ وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر اس مسئلے پر بھی بات ہو گی ۔ وزیر خارجہ نے ایک بڑی اہم بات بھی کی ہے کہ وہ یہ کہ ان کے خیال میں امریکا سے نیا رشتہ قائم ہو گا ہم امریکی وزیر خارجہ کو تصویر کا دوسرا رُخ دکھائیں گے ۔ شاہ صاحب کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ حکومت نے امریکا سے کسی سطح پر بھی روابط نہیں رکھے ۔ ہم عزت و احترام ملحوظ رکھ کر تعلقات بڑھائیں گے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے بھی وزیر خارجہ کا منصب سنبھال چکے ہیں انہیں اس کا خوب اندازہ ہو گا کہ امریکا نے کون سے فنڈزروکے ہیں اور وہ یہ فنڈز ادا کرے گا یا نہیں۔یہ وہی امریکا ہے جس نے پاکستان سے 1980ء کے عشرے میں ایف16 طیاروں کی رقم وصول کر لی تھی لیکن برسوں یہ رقم دبائے بیٹھا رہا اور پاکستان کو ضرورت کے وقت یہ طیارے نہیں دیے ۔ اب تو امریکا کھل کر بھارت کو اپنا اسٹریٹجک حلیف کہتا ہے وہ خطے میں طاقت کا توازن بھی بھارت کے حق میں دیکھنا چاہتا ہے اگرچہ اگلے پانچ سال کے لیے منتخب ہونے والی حکومت سے بظاہر امریکا کو کوئی خطرہ نہیں لیکن پھر بھی امریکا ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا کہ کسی وجہ سے پاکستان خطے میں طاقتور ممالک میں صف اول میں آ جائے ۔ کیونکہ ایک مرتبہ اگر پاکستان ایسی صف میں آ گیا تو اس کو پیچھے لانے کے لیے طویل جد وجہد کرنا پڑے گی ۔ جیسا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کو ملنے والی رعایتوں کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی قوت بن گیا ۔ شاہ صاحب یہ بھی بتائیں کہ کیا امریکا کے طویل ماضی کی روشنی میں وہ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ تعلقات عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کیے جائیں گے ۔ امریکی وزیر خارجہ کو پاکستان آ لینے دیں اور ان کے دورے کے بعد جو کچھ امریکا میں کیا جائے گا اس کا بھی انتظار کر لیں ۔ امریکی حکام وہی کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ جو بات خود نہیں کہہ سکتے وہ نیو یارک ٹائمز یا کسی اور اخبار کے ذریعے کہلواتے ہیں پھر اس پر تبصرہ کرتے ہیں ۔ ابھی امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کے بیان کا معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر بات نہ کرنے کا اعلان پسپائی کا اعلان ہی تھا ۔ اس کے بعد امریکا نے امداد بند کرنے کا اعلان کیا ۔ امریکا اسے امداد ہی کہتا ہے۔۔۔ اگر یہ رویہ رہا تو امریکا سے عزت احترام بر قرار رکھتے ہوئے تعلقات کیسے ممکن رہیں گے ۔ امریکا پاکستان سے ایک مبہم مطالبہ کرتا ہے کہ طالبان اور امریکا مخالف گروپوں کے خلاف وزیرستان اور پاکستانی علاقوں میں سخت کارروائی کرے۔۔۔ لیکن پاکستانی حکومتیں اور فوج جنرل پرویز کے دورسے آج تک یہی تو کر رہی ہیں۔ان کارروائیوں میں اتنی سختی رہی کہ سارا پاکستان چیخ اُٹھا ۔۔۔ لیکن امریکا ہے کہ مانتا ہی نہیں پھر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپوں کے محفوط اڈے ختم کر دے ۔۔۔ پاکستان کی جانب سے بتایا جاتا ہے کہ محفوظ اڈے تو افغانستان میں ہیں لیکن امریکی حکام اسے مانیں تو بات آگے بڑھے گی ۔ شاہ صاحب کا یہ ارشاد بھی بڑا دلچسپ ہے کہ امریکا کے ساتھ نیا رشتہ قائم ہو گا ۔تو سب یہ سوال ضرور کریں گے کہ کیا پرانا رشتہ ختم ہو گیا ہے۔۔۔ جناب امریکا سے رشتہ جوڑنا جتنا مشکل تھا اس سے رشتہ توڑنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ یہ وہ کمبل ہے جس کو اوڑھنا آسان اور جان چھڑانا مشکل ہے ۔ یہ بات پاکستانی وزیر خارجہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کرے گی کہ افغانستان چھوڑنا ہے تو پاکستان کی جان بھی چھوٹے گی ۔ لیکن افغانستان امریکا کے لیے کمبل بن چکا ہے چھوڑنے کی صورت میں اس کی 17 برس کی سرمایہ کاری صفر ہو کر رہ جائے گی ۔ بھارتی جاسوس نیٹ ورک اس خبر کے ساتھ ہی رونا شروع کر دیتا ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد ہمارا کیا ہو گا۔۔۔ اس لیے امریکا افغانستان میں ٹھیرنے یا اپنی افواج کو مزید کچھ عرصے کے لیے افغانستان میں رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ وزیر خارجہ نے بتایا ہے کہ امریکا سے تعلقات تقریباً ختم ہیں۔۔۔ یہ بات سمجھ سے بالا ہے ۔۔۔ کیونکہ جس ملک سے امریکا کے تعلقات ختم ہوتے ہیں امریکا کا وزیر خارجہ وہاں کا دورہ نہیں کرتا خصوصاً ایسے موقع پر کہ ابھی انتخابی عمل بھی ٹھیک طرح مکمل نہیں ہوا۔۔۔امریکا سے تعلقات کی نوعیت، معاہدوں کی تفصیل ہمیشہ کی طرح خفیہ ہے اور رہے گی ۔ لہٰذا کسی نئے رشتے کی بات کرنا قبل از وقت ہے ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکا اور یورپ کے بارے میں پاکستان کے اردو میڈیا کو جو کچھ بتاتے ہیں وہ انگریزی میڈیا اور مغربی میڈیا کو نہیں بتاتے۔۔۔ یا کم ا زکم ان کے الفاظ مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ معاملہ بھی واضح ہونا چاہیے ۔ امریکاسے نیا رشتہ قائم کیا جائے یا نہیں ۔ کم از کم قوم کو پرانے رشتوں کی شرائط سے ضرور آگاہ کر دیا جائے ۔ ابھی شاہ محمود قریشی صاحب کی تقریر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور یہ سطور بھی طباعت کیلئے نہیں گئی تھیں کہ حسب توقع امریکی بیان آگیا کہ پاکستان کو ہمارے قوانین کے مطابق کام کرنا ہوگا ۔ یہ ہے نیا رشتہ۔۔۔ امریکا کی جانب سے بیان جاری ہوا ہے کہ (پاکستان) امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تو اسے افغانستان کے حوالے سے امریکی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا پڑے گا یہ وہی معاملہ ہے جس کے بارے میں پہلے پاکستانی حکومت ڈٹ گئی تھی اور بعد میں پسپائی اختیار کی تھی کہ امریکی بیان کے حوالے سے مزید بات نہیں کی جائے گی ۔ تازہ امریکی بیان میں یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ نہ صرف امریکی امداد بحال نہیں ہو گی بلکہ مزید پابندیاں بھی لگائی جا سکتی ہیں ۔ گویا نئی پاکستانی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اب امریکی دہشتگردی سے نمٹنے کا ہے ۔ امید ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی بیان بازی میں توازن قائم رکھیں گے ۔ اگر ان کے وزیر اعظم ان نزاکتوں کو نہیں سمجھتے تو وہ تو اس کا تجربہ رکھتے ہیں انہیں اس حوالے سے قوم کو درست تصویر دکھانی ہو گی ۔ ہمارے خیال میں پومپیو کے بجائے شاہ محمود قریشی پاکستانی قوم کو درست تصویر دکھائیں۔