جنابِ وزیر اعظم !

295

شآپ کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونا مبارک ہو، آپ تبدیلی کے نعرے پر آئے ہیں، ہماری دعا ہے کہ آپ کی برپا کی ہوئی تبدیلیاں ملک وملّت کے لیے بہتر ثابت ہوں، آپ سے ایک بے ضرر سی تبدیلی کی فرمائش ہم بھی کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے:
اسلام میں ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور نہیں ہے، لیکن عالَم انسانیت نے اپنی آسانی کے لیے ہفتہ وار تعطیل کا شعار اختیار کرلیا ہے، سو بیش تر ممالک میں ہفتے میں پانچ دن کام اور دو دن تعطیل ہوتی ہے تاکہ لوگ آرام کر کے تازہ دم ہوجائیں اور اپنے ضروری کام بھی اس دوران نمٹا لیں۔ پس اس شِعار کو اختیار کرنے میں کوئی شرعی قباحت بھی نہیں ہے اور ہمارے ہاں بھی یہی رائج ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ہاں ہفتہ وار تعطیل اتوار کو ہوا کرتی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ شعار ہم نے برطانوی راج سے ورثے میں پایا تھا۔
اسلام میں بھی جمعۃ المبارک کی لازمی تعطیل کا کوئی تصور نہیں ہے، قرآنِ کریم میں صرف اتنا حکم ہے: ’’اے مومنو! جب نمازِ جمعہ کے لیے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر (یعنی نماز) کی طرف دوڑے چلے آؤ اور (محدود وقت کے لیے) کاروبار کو چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو، پھر جب نماز ادا کرلی جائے تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘۔ اللہ کے فضل کا ایک معنی یہ ہے کہ روزی کے حصول کی جستجو کرو، یعنی نمازِ جمعہ کی ادائی کے لیے دنیاوی کاروبار پر ایک محدود وقت کے لیے جو بندش لگائی گئی تھی، وہ نماز سے فراغت کے بعد اٹھا دی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں بعض مقامات پر امر کا صیغہ اباحت کے معنی میں بھی آیا ہے۔
جمعۃ المبارک اسلامی شعائر میں سے ہے، ہفتے کا یہ واحد دن ہے، جس کے احکام اور فضیلت کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’’سورۃُ الجمعہ‘‘ نازل فرمائی، اس کا دوسرا رکوع مکمل احکامِ جمعہ سے متعلق ہے۔ نمازِ جمعہ کے ترک پر رسول اللہ ؐ نے سخت وعید فرمائی ہے: (1) آپ ؐ نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: لوگ نمازِ جمعہ کو ترک کرنے سے باز آجائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں پر ضرور مہر لگا دے گا، پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے‘‘ (2) رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس نے سستی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دیے، (اس کے وبال کے طور پر) اللہ اُس کے دل پر مہر لگا دے گا‘‘۔ (3): ’’ہم (دنیا میں) بعثت کے اعتبار سے آخری امت ہیں اور قیامت کے دن محشر میں حضوری کے اعتبار سے سب سے پہلے ہوں گے، سوائے اس کے کہ اُن (یہود ونصاریٰ) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں اُن کے بعد دی گئی، پھر اس (جمعہ کے) دن ان پر نماز فرض کی گئی، انہوں نے اس میں اختلاف کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں (اس کی فضیلت کو سمجھ پانے کی) ہدایت عطا فرمائی اور لوگ ہمارے پیچھے رہے، یہود نے اگلے دن (ہفتے) کو اختیار کرلیا اور نصاریٰ نے اس کے بعد والے دن (یعنی اتوار کو اختیار کرلیا)‘‘۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ جمعۃ المبارک کے شرف سے محروم ہوگئے اور انہوں نے بالترتیب ہفتے اور اتوار کو اپنے مذہبی تقدس کے لیے اختیار کرلیا، چناں چہ یہودی ہفتے کے دن اور نصاریٰ اتوار کے دن اپنی اپنی عبادت گاہ میں عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ہفتے اور اتوار کے دن کے ساتھ یہود ونصاریٰ کا مذہبی تقدس کا رشتہ قائم ہے، جب کہ ہماری یہ نسبت جمعۃ المبارک کے ساتھ ہے، لیکن ہم نے اپنے مُقدس دن کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کے مقدس ایام کو ہفتہ وار تعطیل قرار دے ڈالا۔
1977کی تحریکِ نظامِ مصطفی ؐ کے دوران اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے چند اقدامات کا اعلان کیا، ان میں جمعے کی ہفتہ وار تعطیل، شراب کی ممانعت اور قِمار پر مبنی گھُڑدوڑ کی ممانعت وغیرہ شامل تھے۔ بعد میں جب نواز شریف صاحب کو 1997 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملی، تو انہوں نے قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں جمعۃ المبارک کی تعطیل کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ ہمارے نزدیک کسی حکمران کے زوال کے زمینی اسباب تو ہوتے ہی ہیں اور وہ سب کو معلوم ہیں، لیکن قدرت کی طرف سے مافوقَ الاسباب بھی کچھ فیصلے ہوتے ہیں، ہماری نظر میں اُن کے زوال کے ماورائی اسباب میں سے ایک جمعۃ المبارک کی تعطیل کی منسوخی بھی تھی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف صاحب کا اقتدار اپنے پورے عروج پر تھا کہ انہوں نے حدودِ الٰہی کو چھیڑا، پھر اُن کے زوال کا سفر شروع ہوا۔ اُن کے زوال کے زمینی اسباب میں عدلیہ کو کنٹرول میں لانا شامل تھا، لیکن مافوقَ الاسباب کچھ قدرت کے بھی فیصلے تھے، کیوں کہ انہوں نے کسی تحدید وتوازن کے بغیر فحاشی کے فروغ کے لیے سب دروبند کھول دیے اور آج پوری قوم اُسے بھگت رہی ہے۔ جو لوگ قدرت کے غیر مرئی فیصلوں پر یقین نہیں رکھتے، وہ ہماری باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں، وہ ایسا کرسکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ غیر معینہ مدت کے لیے کسی کی رسی دراز نہیں کرتا، مہلت کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد عبور کرلی جائے تو قدرت کا تازیانۂ عبرت حرکت میں آجاتا ہے۔
لہٰذا وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ حکومت کے انتظامی امور میں جو ردّوبدل کرنا چاہتے ہیں، اُن میں جمعۃ المبارک کی تعطیل کی بحالی بھی شامل فرمالیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد واپس آکر ورکنگ آور پورا کرو، لیکن ایسا ہو نہیں پاتا، کام کا ایک تسلسل ہوتا ہے، ایک رِدھم ہوتا ہے، جب وہ ٹوٹ جاتا ہے تو سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، دوبارہ پہلی رفتار پر جڑ نہیں پاتا۔ پھر جمعۃ المبارک کے لیے غسل مسنون ہے، نماز کی مناسبت سے لباس اچھا لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے: ’’اور ہر نماز کے وقت لباسِ زینت اختیار کرو‘‘۔ ہمیں یقین ہے کہ جمعۃ المبارک کی تعطیل کی بحالی کی برکات سے اُن کے اقتدار کو بھی کسی نہ کسی درجے میں برکت نصیب ہوجائے گی۔ رسول اللہ ؐ نے متعدد احادیثِ مبارکہ میں جمعۃ المبارک کو رونما ہونے والے اہم واقعات بیان فرمائے۔
آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوتا ہے، جمعۃ المبارک کا دن ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا: جمعے کے دن قبولیتِ دعا کی ایک ساعت ہے، جس بندے کو یہ ساعت حالتِ دعا میں نصیب ہوجائے، اللہ تعالیٰ اُس کی دعا قبول فرمالیتا ہے اور یہ مختصر سی ساعت ہے‘‘۔ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں: ایک یہ کہ یہ امام کے خطبۂ جمعہ کے لیے کھڑے ہونے سے لے کر نماز سے فراغت تک ہے اور دوسری یہ کہ یہ جمعے کے دن نمازِ عصر کے بعد سے غروبِ آفتاب تک ہے، پھر آپ ؐ نے فرمایا: تمہارے دنوں میں سے سب سے بہترین جمعے کا دن ہے، اس میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا، اسی دن اُن کی روح قبض ہوئی، اسی دن (قیامت قائم ہونے کے لیے) صور پھونکا جائے گا، اسی دن ایک ہولناک آواز آئے گی (جس کے نتیجے میں سب زندہ انسان وفات پاجائیں گے، اس کڑک کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہے)، پھر آپ ؐ نے فرمایا: سو تم جمعۃ المبارک کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، صحابۂ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ ؐ! جب (وصالِ مبارک کے بعد) آپ کا جسدِ مبارک بوسیدہ ہوجائے گا، تو ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا، آپ ؐ نے فرمایا: بے شک انبیائے کرام کے اَجسادِ مبارکہ پر اللہ تعالیٰ نے زمین کے اثر انداز ہونے کو حرام قرار دے دیا ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’بے شک جمعہ سید الایام ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والا ہے‘‘۔ حدیثِ پاک میں آپ ؐ نے جمعۃ المبارک کے دن اجر وثواب کی درجہ بندی بیان فرمائی ہے کہ سب سے پہلے آنے والے کا ثواب سب سے زیادہ ہوگا، اُس کے بعد جس ترتیب سے آئیں گے، درجہ بدرجہ ثواب ملے گا، لیکن جب امام خطبے کے لیے کھڑا ہوجائے گا تو فرشتے (فضیلت کا) رجسٹر بند کردیتے ہیں۔
پس حکومت کو چاہیے کہ ان برکات کے حصول کے لیے جمعۃ المبارک کی تعطیل کا اعلان کر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کمانے اور فضیلت حاصل کرنے کا موقع دے، ثواب کے طلب گار بھی ثواب کمائیں اور حکمران کو بھی اس ثواب میں حصہ ملے۔ اگرحکومت ہفتے میں دو دن کی چھٹی کا فیصلہ کرتی ہے، تو جمعے کے ساتھ ہفتے کو ملایا جاسکتا ہے اور لوگ اتوار تا جمعرات پانچ دن مکمل اوقاتِ کار کے ساتھ آسانی سے کام کر پائیں گے، جمعۃ المبارک کی نماز سے محروم بھی نہیں رہیں گے اور نہ ہی یہ منظر نظر آئے گا کہ لوگ جیسے تیسے وضو کر کے دوڑ بھاگ کر بمشکل نمازِ جمعہ میں شامل ہورہے ہیں۔ بڑے مناصب کے حامل سرکاری عُمّال کو تو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے دفتر میں واش روم میں آرام وسکون سے وضو کریں، انہیں صابن تولیے کی بھی سہولت ہوتی ہے، لیکن نچلے درجے کے ملازمین کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ جنابِ وزیر اعظم! اتفاق سے سابق وزیر اعظم جنابِ نواز شریف کی نا اہلی اور سزا کا اعلان جمعۃ المبارک کے دن ہوا تھا، اُن کی گرفتاری بھی جمعۃ المبارک کے دن ہوئی، قومی اسمبلی نے آپ کو جمعۃ المبارک ہی کے دن وزیر اعظم منتخب کیا، آپ نے تو اسے یومِ نجات منانے کے لیے کہا تھا، بہتر ہوگا کہ اسے خشوع وخضوع کے ساتھ لوگوں کے لیے یومِ عبادت اور زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کمانے کا ذریعہ بنائیں اور جنابِ نواز شریف سے گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدقِ دل سے توبہ کریں، ہم سب گناہگار ہیں اور ہم سب کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے رہنا چاہیے۔