ضیاء الدین اسپتال یا بااثر ملزمان کا ٹھکانہ

197

یوں تو ’’ہفتہ‘‘ ہر ہفتے آتا ہے۔ ہر ہفتے کی شب عیاش لوگ Saturday Night بھی مناتے ہوں گے۔ مگر یکم ستمبر کو آنے والا ہفتہ کم ازکم پیپلز پارٹی کے دوسرے درجے کے رہنما مگر آصف علی زرداری کے صف اول کے دوست شرجیل انعام میمن کے لیے اچھا ثابت نہ ہوسکا۔ ’’شب ہفتہ‘‘ تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی ابھی تو اس کی تیاری تھی۔ ضیاء الدین اسپتال کلفٹن کے کمرہ وی وی آئی پی ٹو ’’4013‘‘ جس میں شرجیل میمن بظاہر یا آن ریکارڈ زیر علاج تھے، مگر شراب کی بوتلیں بھی موجود تھیں۔
موقع ملے تو کسی بیمار کی عیادت کون نہیں کرنا چاہے گا، بس یہی سوچ کر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اچانک ہفتے کی رات شرجیل میمن کی عیادت کی غرض سے ضیاء الدین اسپتال پہنچے، شرجیل میمن کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے دستک دی کیوں کہ کمرہ اندر سے بند تھا، دروازہ کھلنے میں تاخیر ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ: ’’شرجیل صاحب میں چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں آپ کی عیادت کے لیے آیا ہوں، جسٹس صاحب کے ان جملوں کے باوجود دروازہ فوری نہیں کھولا گیا مگر جب دروازہ کھلا تو شرجیل میمن تولیہ باندھے کھڑے تھے، انہیں دیکھ کر نہیں لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کمرے کی حالت کسی مریض سے زیادہ کسی عیاش آدمی کے کمرے کی عکاسی کررہا تھی۔ یقیناًچیف جسٹس کو شرجیل میمن کی درست حالت بلکہ مکمل صحت مند دیکھ کر خوشی ہوئی ہوگی مگر کمرے میں رکھی شراب کی بوتلیں دیکھ کر چیف جسٹس نے شرجیل میمن سے کہا کہ: ’’یہ کیا شراب کی بوتلیں یہاں‘‘۔ شرجیل میمن نے کانپتی آواز میں جواب دیا کہ میری نہیں ہے۔ چوں کہ یہ بات واضح تھی کہ سابق صوبائی وزیر اور نو منتخب رکن سندھ اسمبلی شرجیل انعام بیمار نظر نہیں آرہے بلکہ بغیر چھڑی اور کسی کی مدد کے کھڑے ہیں، بات بھی نارمل اندازہ میں کررہے ہیں، اس لیے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شرجیل کو فوری سینٹرل جیل منتقل کیا جائے، کمرے کی تلاشی کے ساتھ شراب کی بوتلوں کو قبضے میں لیا جائے اور تحقیقات کرکے رپورٹ انہیں پیش کی جائے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار مریض کی عیادت کرنے کی نیک نیتی سے اسپتال پہنچے مگر ’’بونس‘‘ میں انہیں فرائض منصبی کا موقع ملا اس طرح ان کا نیک عمل ان کی طرف سے چھاپا مار کارروائی میں بدل گیا۔ اس طرح صرف شرجیل میمن کی بیماری کا مبینہ ڈراما ہی نہیں بلکہ بہت کچھ عیاں ہوگیا۔
چیف جسٹس کے اچانک ضیاء الدین اسپتال کے دورے سے اسپتال کا روم نمبر 4013 کی اصلیت بھی سامنے آئی حکومت نے تو اسے سب جیل قرار دیا تھا مگر سب جیل کے قیدی کا یہ کمرہ کچھ اور بیان کررہا تھا۔ بہرحال چیف جسٹس کے حکم پر کمرے سے شراب کی موجودگی پر شرجیل میمن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اور یقیناًتحقیقات بھی شروع کی جاچکی ہوگی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس عارضی سب جیل کے عملے کے خلاف شراب کی موجودگی پر کیا کارروائی کی گئی ہے یا کی جائے گی ہے۔ قانون کے تحت جس کسی عمارت کو سب جیل قرار دیا جاتا ہے وہاں کی نگرانی و حفاظت جیل کے عملے اور متعلقہ پولیس اسٹیشن پر عائد ہوتی ہے۔ سب جیل قرار دیے گئے ضیاء الدین اسپتال کی نگرانی اور حفاظت کی ذمے داری بھی جیل کے عملے اور متعلقہ پولیس پر تھی۔ سوال یہ ہے کہ جیل کے عملے اور پولیس کی موجودگی میں غیر قانونی اشیاء کس طرح مریض کے کمرے میں پہنچیں؟ یہ سوال اس لیے بھی پیدا ہورہا ہے کہ اسپتال کا وی وی آئی پی کمرہ مریض کے لیے وقف تھا کسی شراب خانے اور شرابی کے لیے نہیں تھا۔ اس لحاظ سے اسپتال کے متعلقہ عملے خصوصاً سیکورٹی گارڈ سے بھی یہ پوچھا جانا چاہیے کہ اسپتال میں ممنوع اور مضر صحت اشیاء کس طرح اور کن وجوہ کے تحت لانے کی اجازت دی گئی۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر ضیا الدین اسپتال پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے دوست ڈاکٹر عاصم کی ملکیت ہے ڈاکٹر عاصم جن کے اپنے اوپر 489 ارب روپے غبن کا الزام ہے۔ گو کہ یہ اسپتال سنگین مقدمات میں ملوث ملزمان کا ٹھکانہ ہے۔ یہ بااثر ملزمان جیل جانے کے باوجود اپنی مرضی کی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے اپنی بیماری کا بہانہ بناکر اس اسپتال میں پہنچ جاتے ہیں۔ ماضی میں آصف علی زرداری نے بھی اپنی قید کے بیش تر ایام اسی اسپتال میں گزارے تھے۔ بہترین سہولتیں فراہم کرنے پر اسپتال کے مالک ڈاکٹر عاصم، آصف زرداری کی ’’گڈ فرینڈ لسٹ‘‘ میں شامل ہوگئے۔ اور اس دوستی اور دیگر وجوہ کے تحت وہ بھی نیب کے ’’ملزمان‘‘ کی فہرست میں شامل ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس کی اسپتال آمد کے موقع پر شرجیل میمن کو بغیر کسی سہارے کے چلتے ہوئے دیکھ کر تعجب اس لیے ہوا تھا کہ چند روز پہلے یہی شرجیل میمن عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئے تو ایک شخص کا اور لاٹھی کا سہارا لے کر لنگڑاتے ہوئے چل رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سخت بیمار ہیں، سرجری کی ضرورت جو پاکستان میں نہیں ہوسکتی اس لیے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے اسپتال کے علاج سے شرجیل میمن تیزی سے صحت مند ہوچکے ہوں۔ شرجیل میمن پر الزام ہے کہ ان کے گھر سے 200 کروڑ کیش ملے تھے، جو ظاہر ہے ناجائز طور پر کمائی ہوئی رقم تھی، انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔ اسپتالوں پر چیف جسٹس کی ازخود کارروائی کے بعد کم ازکم اس ضیاء الدین اسپتال کو کسی بھی ملزم یا ملزمان کے لیے غیر مناسب یا بلیک لسٹ قرار دینا چاہیے۔ ویسے تو اس اسپتال میں شراب کی آزادانہ نقل و حمل سے بھی اس کی کارکردگی مشکوک ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ان نکات پر بھی جلد غور کرکے اہم اقدامات کریں گے۔ اگر ضیاء الدین اسپتال کو جیل میں قید مریضوں کے لیے ممنوع قرار نہ دیا گیا تو امکان ہے کہ اب جلد ہی گرفتار ہونے والے سیاست کے چمپئن کھلاڑی ایک بار اسی اسپتال میں بیماری کا بہانہ بناکر قید ہوجائیں گے اور آزاد زندگی کے مزے لوٹیں گے۔