قادیانیوں کے سرکاری وکیل

1029

ابھی پاکستان میں حکومت سازی کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے کہ اس حکومت کے حوالے سے نیا بحران سامنے آگیا ہے اور یہ نہایت سنگین ہے۔ حکومت نے حال ہی میں قومی اقتصادی مشاورتی کونسل میں ایک قادیانی ڈاکٹر میاں عاطف کو شامل کرلیا اس پر پاکستان بھر کے عوام کو بجا طور پر تشویش ہے کہ ابھی حکومت نے اپنا کام بھی شروع نہیں کیا ہے کہ اس کے خلاف کام شروع ہوگیا۔ عاطف میاں کا تقرر بھی ایسے حساس شعبے میں کیا گیا ہے جہاں قومی اقتصادیات کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اس کے بعد مزید گڑبڑ یہ ہوئی کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس تقرر پر اعتراض کرنے والوں کو انتہا پسند قرار دے دیا۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان پر اقلیتوں کا بھی حق اتنا ہی ہے جتنا اکثریت کا ہے۔ کیا ہم اقلیتوں کو اٹھا کر بحر عرب میں پھینک دیں۔ چوہدری صاحب اس قدر غصہ نہ کریں، کسی اقلیتی رہنما کو کسی منصب پر رکھنا کوئی مسئلہ نہیں لیکن قادیانی ایسا فتنہ ہیں کہ انہیں کسی منصب کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا چاہیے۔یہ پاکستان کے نظریے کے دشمن ہیں، ہمارے بنیادی عقیدے کے منکر ہیں اور پاکستان کی ریاست کو قادیانی ریاست بنانے کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ایسی اقلیت کو ہرگز کسی اقلیت جتنا حق نہیں ملنا چاہیے ۔ حیرت ہے پاکستان کی ریاست کی ہیئت بدلنے کی کوشش کرنے والے، یہاں اپنی مرضی کا نظام رائج کرنے کے علمبردار اور پاکستان کے بنیادی نظریے اسلام کے مخالف تو غدار قرار دیے جاتے ہیں ان کے خلاف پورے ملک میں آپریشن ردالفساد ہو رہا ہے تو پھر قادیانی رد الفساد سے محفوظ کیوں ؟ وہ ریاست، نظریے اور جغرافیے سب کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خود عمران خان کے وزیر ومشیران کے لیے گڑھے کھود رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے لے کر پنجاب کے وزیر اطلاعات اور اب وفاقی وزیر اطلاعات اور عمران خان کے ترجمان فواد چودھری نے نیا فتنہ برپا کردیا ہے۔ عمران خان کو قادیانی میاں عاطف کے سوا اور کوئی ماہر اقتصادیات نہیں ملا۔ قادیانیوں کا شمار اقلیتوں میں نہیں ہوتا کیوں کہ وہ خود کو مسلمان کہتے اور اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ شاید فواد چودھری کو معلوم نہیں کہ قادیانی فتنے کے بانی غلام قادیانی نے فواد چودھری سمیت ان تمام مسلمانوں کو رنڈی کی اولاد قرار دیا ہے جو اس پرایمان نہیں رکھتے۔ ممکن ہے فواد چودھری اس زمرے میں نہ آتے ہوں۔ انہوں نے قائد اعظم کا حوالہ دیا ہے کہ قائد نے ایک قادیانی سر ظفر اللہ کو وزیر خارجہ بنایا تھا۔ قائد اعظم پر قادیانیوں کی حقیقت واضح نہیں ہوئی ہوگی لیکن اس کی وجہ سے وزارت خارجہ میں ایک عرصے تک قادیانیوں کا غلبہ رہا۔ دوسری طرف سر ظفر اللہ کا ردعمل کیا تھا۔ اس نے قائد اعظم کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا اور پوچھنے پر جواب دیا کہ مجھے ایک کافر ملک کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا ایک مسلم ملک کاکافر۔ گویا اس نے مملکت اسلامیہ پاکستان کوا یک کافر ملک قرار دے کر اس کے بانی کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا۔ دیگر اقلیتیں اپنی شناخت نہیں چھپاتیں، عیسائی، ہندو، سکھ خود کو مسلمان نہیں کہتے جب کہ قادیانی صرف خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ اقلیت ہیں۔ اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں وہ سیدھے سادھے مسلمانوں کو اپنے جھوٹے دین میں شامل کر کے انہیں ’’ مسلمان‘‘ بناتے ہیں ۔ یہ شرعی مسئلہ ہے جو فواد چودھری یا ان کے ہمنواؤں کو نہیں معلوم ہوگا کہ جو خود کو مسلمان کہے اور ختم نبوت کی تردید کرتے ہوئے کسی اور کو اپنا نبی قرار دے وہ مرتد ہے اور مرتد کی سزا کیا ہے، یہ فواد چودھری کسی عالم سے پوچھ لیں۔ سر ظفر اللہ کے علاوہ قادیانی ظفر چودھری بھی پاک فضائیہ کا سربراہ رہ چکا ہے۔ اس نے ائرفورس میں قادیانیوں کو بھرتی کرنے کی بہت کوشش کی۔ اب عاطف میاں بھی یہی کچھ کرے گا۔ فواد چودھری اورعمران خان کو چاہیے کہ وہ جن کی وکالت کررہے ہیں ان کے عقائد جاننے کے لیے مرزا غلام قادیانی کے عقائد کا مطالعہ کرلیں۔ سب غیر مسلم اقلیتیں اپناراستہ اسلام سے علیحدہ قرا ر دیتی ہیں لیکن یہ ملعون تو خود کو مسلمان قرار دے کر دھوکا دیتے ہیں۔ مرزا غلام قادیانی لکھتا ہے کہ ’’ سچا دین قادیانیوں کا اور اسلام ( معاذ اللہ ) جھوٹا ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ اس زمانے میں مجھ سے زیادہ بیزار اس مذہب (اسلام) سے اور کوئی نہ ہوگا، میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں اور ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے‘‘۔ عاطف میاں اسی مردود غلام قادیانی کا پڑپوتا ہے۔ فواد چودھری اس سے صرف اتنا پوچھ لیں کہ کیا وہ غلام قادیانی کے عقائد پر یقین رکھتا ہے؟ جہاں تک بحر عرب میں کسی کو پھینکنے کی بات ہے تو ختم نبوت پرایمان نہ رکھنے والوں کو ضرور پھینکا جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مسئلہ چند دن پہلے اس وقت اٹھا ہے جب 7ستمبر 1974ء کو آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس کاسہرا بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے۔