تیرویں ویں صدر پاکستان کا انتخاب 

178

صدارتی اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ گیا۔ حسب توقع تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کامیاب ہوگئے جنہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی خود کو صدر مملکت کہنا اور لکھنا شروع کردیا۔ گویا اس وقت پاکستان میں دو صدر ہیں۔ عارف علوی 9ستمبر کو حلف اٹھائیں گے۔ اپنی کامیابی پر ان کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کے ’’ممنون‘‘ ہیں۔ اب تک موجود صدر ممنون حسین نواز شریف کے ممنون تھے۔ صدارتی انتخاب میں افسوسناک بات حزب اختلاف کا انتشار ہے۔ جس طرح وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر حزب اختلاف متحدہ نہیں ہوسکی تھی اور پیپلز پارٹی نے متحدہ مجلس عمل کے امیدوارشہباز شریف کے نام پر اعتراض کر کے علیحدہ راستہ اختیار کیا اور تحریک انصاف کی کامیابی کویقینی بنایا اسی طرح اس بار ہوا کہ پیپلز پارٹی نے مشترکہ امیدوار کا فیصلہ ہونے سے پہلے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا جبکہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن پر صاد کیا۔ چنانچہ یہ دونوں ہار گئے۔ وزارت عظمیٰ کے لیے پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ شہبازشریف کے بجائے کوئی اور نام تجویز کیا جائے۔ یہی کچھ مشترکہ اپوزیشن نے کیا اور مبصرین کے مطابق بدلہ لے لیا۔ صدارتی امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں سے ظاہر ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن اور اعتزاز احسن کے ووٹ ملا بھی لیے جائیں تب بھی عارف علوی کے ووٹ زیادہ ہیں۔ انہوں نے 353،مولانا فضل الرحمن نے 185 اور اعتزاز احسن نے 124ووٹ حاصل کیے۔ ان دونوں کے ووٹ ملا کر 309 بنتے ہیں جو عارف علوی کے ووٹوں سے 44ووٹ کم ہیں ۔ ان دونوں کو ہارنا ہی تھا لیکن مشترکہ امیدوار ہوتا تو ووٹوں کا فرق کم ہو جاتا۔ ووٹ دینے والے اپنے طورپر یہ حساب لگا لیتے ہیں کہ کس کے جیتنے کا امکان ہے اور اگر وہ وفاقی حکومت کا امیدوار ہو تو اس کی طرف جھکاؤ ہو جاتا ہے۔ جب ان دونوں کو ہارنا ہی تھا تو حزب اختلاف میں انتشار بڑھانے کے بجائے اتحاد کا مظاہرہ تو کیا ہوتا۔ شاید اس طرح ایک اچھا پیغام جاتا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اطمینان ہے کہ اس کے مقابلے میں حزب اختلاف منتشر ہے۔ کچھ ووٹ ادھر سے ادھر بھی ہوئے ہیں۔ کل 1083 ووٹ پڑے۔ جن میں سے 27 مسترد ہوئے ہیں۔ ووٹ مسترد ہونا بھی اچھی روایت نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ارکان اسمبلی کو اب تک ووٹ ڈالنا ہی نہیں آیا۔ اب تک منصب صدارت پر فائز ممنون حسین کو ’’دہی بھلے‘‘ والا صدر کہنا بدذوقی نہیں بے ہودگی ہے۔ فیاض الحسن چوہان بار بار معذرت کرنے کے باوجود اپنی زبان کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ممنون حسین دہی بھلے نہیں بیچتے تھے اور بیچتے بھی ہوں تو اس میں کیا عجب ہے۔ اب ایک دندان ساز صدر بننے جارہاہے جس نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی اعلان کردیا کہ وہ پورے ملک کے صدر ہیں۔ قبل از وقت یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ کیا وہ غیر جانبدار رہ سکیں گے۔ صدر مملکت وزیر اعظم کا پابند ہوتا ہے۔ غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔