خاکوں سے کیا فرق پڑتا ہے

299

الحمد للہ گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اختتام کو پہنچا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ: ’’ہالینڈ میں گستا خانہ خاکوں کا معاملہ ہر مسلمان کا مسئلہ ہے‘‘۔ سیدنا محمد کریمؐ مسلمانوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔ نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی ہر مسلمان کے لیے یکساں تکلیف دہ ہے۔ لیکن مغرب کے لوگوں کو ہمارے جذبات کا احساس اور سمجھ نہیں ہے۔‘‘ وزیراعظم کی بات درست ہے۔ مغرب ایک ایسے ماحول میں زندگی بسر کررہا ہے جہاں تقدیس کا لباس کسی کے زیب تن نہیں حتی کہ انبیائے کرام کے بھی نہیں۔ ایسے میں انہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ خاکوں سے کسی کا کیا بنتا بگڑتا ہے۔ خاکوں کی حقیقت ہی کیا ہے دنیا بھر میں روز لاکھوں کارٹون اور خاکے بنتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا جنہیں مشتہر کرتا ہے لیکن کہیں سے احتجاج کی صدا بلند نہیں ہوتی۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے۔ مسلمان کیوں غیر ضروری طور پر جذباتی اور مشتعل ہوجاتے ہیں۔ کارٹون اور خاکوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس بات پر ہمیں دانش اور آگاہی کے پیکر محقق مترجم مفسر قرآن سوانح نگار اور عظیم صحافی مولانا عبدالماجد دریاآبادی یاد آگئے جو ابتدائے جوانی میں مرتد ہوگئے تھے۔ اپنے مرتد ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ ’’آپ بیتی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’لکھنؤ کی لائبریری میں ایک ضخیم کتاب International Library of Famous Literature کے نام سے کئی جلدوں میں دکھائی دی۔ ساری دنیا کے ادبیات کے بہترین انتخاب کو اس میں جمع کردیا گیا ہے۔ اس کی ایک جلد میں ذکر قرآن اور اسلام کا ہے۔ ذکر خیر نہ سہی لیکن بہرحال کوئی ہجو بھی نہیں لیکن اسی جلد میں ایک پورے صفحے کا فوٹو بھی بانی اسلام کا درج ہے۔ قد آدم اور نیچے مستند حوالہ درج کہ فلاں قلمی کا یہ عکس ہے۔ گویا ہر طرح صحیح اور معتبر، ظالم نے شبیہہ مبارک ایک عرب کے جسم پر عبا، سرپر عمامہ اور چہرہ مہرہ پر بجائے کسی قسم کی نرمی کے، تیوروں پر خشونت کے بل پڑے ہوئے۔ ہاتھ میں کمان شانے پر ترکش، کمر میں تلوار نعوذباللہ گویا تمام تر ایک ہیبت ناک اور جلاد قسم کے بدوی سردار قبیلے کی۔ اب آج اگر خدانخواستہ پھر اس طرح کا کوئی نقش نظر پڑے تو طبیعت خود ہی بے ساختہ کہہ اٹھے ’استغفراللہ‘۔ اصلیت سے اس پیکر خیالی کا تو کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔ حدیث میں چہرہ بشرہ وضع لباس کا ایک ایک جزئیہ دیا ہے۔ اس سے اس ہیولے کو کوئی مناسبت ہی نہیں۔ یہ قطعی کسی شیطان کا گڑھا ہوا ہے۔ اس وقت اتنے ہوش کہاں تھے۔ چوٹ پڑی اور بڑی سخت چوٹ یک بہ یک دل و دماغ دونوں پر پڑی اور اندر سے آواز آئی توبہ کہ لیجیے کیا دھوکا ہوا ہے۔ شفقت و لینت کرم اور رحمت کے سارے قصے بے اصل نکلے حقیقت تو اب جاکر کھلی۔ فرنگیت سے مرعوب ذہنیت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ خود اس فوٹو میں کوئی جعلسازی ہوسکتی ہے اور صاحب کی بات بھی کوئی غلط ہوسکتی ہے۔ تحقیق تو ہو نہ ہو وہی ہے جو اس فوٹو سے عیاں ہے۔
لیجیے برسوں کی محنت اور تیاری کا قلعہ بات کی بات میں ڈھے گیا اور بغیر کسی آریا سماجی مسیحی یا کسی اور دشمن اسلام سے بحث و مناظرے میں مغلوب ہوئے ذات رسالت سے اعتقاد، بحیثیت رسول کیا معنی، بحیثیت ایک بزرگ یا اعلیٰ انسان کے بھی دیکھتے دیکھتے دل سے مٹ گیا! اسلام اور ایمان کی دولت عظیم ارتداد کے خس و خاشاک میں تبدیل ہوگئی۔ ہر مسلمان کے لیے کتاب کا یہ حصہ بڑے غور و فکر عبرت اور بصیرت سے پڑھنے کے قابل ہے۔ دین کی آغوش میں پلا ہوا، پڑھا ہوا لڑکا بلکہ نوجوان شیطان کے پہلے دوسرے حملے میں ہی یوں چت ہوگیا۔ گمراہی کے کتنے دروازے ہیں اور شیطان کی آمد کے لیے کتنے راستے کھلے ہوئے ہیں‘‘۔
یہ ایک اسے نوجوان کا تاریک راہوں میں نکل جانے کا احوال ہے جس نے اسلام کی روشنی میں آنکھ کھولی تھی۔ صوم و صلوۃ کا پابند، انگریزی زبان کی غیر معمولی استعداد کے ساتھ اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔ لیکن ایک ناقص درجے کی فضول تصویر اس کے سامنے اس مہارت اور اعتبار اور منزلت سے پیش کی گئی تو اس کے ایمان قلبی کی ضد بن گئی اس کی عقیدت کے قلعہ کو مسمار کرکے رکھ دیا اور وہ ارتداد کے خارزار کی طرف جانکلا۔
تصور کیجیے مغرب میں وہ کروڑوں لوگ جو سیاست سے سروکار رکھتے ہیں اور نہ جنہیں اسلام کے بارے میں کچھ پتا ہے ان کے علم کا سارا انحصار شام کو ٹی وی دیکھنے یا پرنٹ میڈیا پر ہے۔ انہیں جب میڈیا پر اس طرح کے خاکے دکھائے جائیں گے تو رسالت مآب ؐ سے متعلق وہ تشکیک کے کس طوفان میں بہہ جائیں گے۔ اس کے بعد کیا یہ ممکن ہے کہ عالی مرتبت ؐ کی شخصیت سے متعلق کوئی فکر کوئی موضوع کوئی بیان ان کی زندگی کو تاریخ انسانی کے بلندترین افق سے آگاہ کرسکے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو امام مالک ؒ کا یہ قول حرف آخر ہے کہ: ’’اگر رسول خدا ؐ کو دشنام کا ہدف بنایا جائے گا تو امت باقی نہیں رہے گی‘‘۔ مغرب جانتا ہے جس دن روح محمدی ؐ مسلمانوں کے بدن سے نکل گئی مسلمان ختم ہوجائیں گے۔ مشرق وسطیٰ میں روشن خیال اور ماڈرن ازم کی آواز ڈاکٹر وفا سلطان کا کہنا تھا: ’’دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو روشن خیال بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے نبی کے توہین آمیز کارٹون بار بار شائع کیے جائیں۔ جب مسلمان احتجاج کرنا چھوڑ دیں گے تب ہمیں یقین آئے گا کہ وہ ماڈرن ہوچکے ہیں‘‘۔ مختلف اخبارات میں خاکوں کی بار بار اشاعت محض شرارت یا دل آزاری نہیں بلکہ تصادم اور کشمکش کے مسلسل عمل میں مسلمانوں کی قوت کا اندازہ لگانا ہے۔ یہ ایک منصوبے کا حصہ ہے۔ وہ فلمیں بھی جن میں بظاہر اسلام سے متعلق کوئی منفی بات ہے اور نہ شان رسالت ؐ میں کوئی گستاخی ہے اس منصوبے کا ایک حصہ ہیں۔ ہمارے ایک ٹی و ی چینل پر فلم The Message بار بار دکھائی گئی۔ اس فلم میں نبی کریمؐ کا کوئی عکس تو نہیں دکھایا گیا لیکن سیدنا حمزہؓ سمیت متعدد صحابہ کرام دکھائے گئے۔ کیا یہ بات بعید از قیاس ہے کہ جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی ہے جب ان کے سامنے ان صحابہ کرام کا نام آتا ہو تو ان کے ذہن میں اینتھونی کوئین اور دیگر بدفطرت ہالی وڈ ایکٹروں کے چہرے گھومتے ہوں۔ کیا یہ بات کسی نہ کسی درجے میں قدسیوں کی اس جماعت سے ان کی عقیدت کو متاثر کرنے کا سبب نہ بنتی ہوگی آسمانِ زمین پر جن سے برگزیدہ لوگ آج تک نہ دیکھے گئے۔
رسالت مآب ؐ پر دل شکن اعتراضات اور حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے مگر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اس عمل میں تیزی آئی۔ مغرب بدھ مذہب ہندو مت اور دیگر مذاہب پر مفکرانہ غور وفکر کرسکتا ہے لیکن اسلام کی بات ہو تو توازن کھو بیٹھتا ہے۔ مسلمانوں نے ہر عہد میں مغرب کا اعتراضات کا جواب دلائل سے دیا ہے۔ مغرب کے پاس کوئی ایسی علمی دلیل نہیں جس کا جواب صداقت سے نہ دیا گیا ہو لیکن یہ کارٹون فلمیں اور توہین آمیز خاکے ان کا کیا جواب دیا جائے؟ یہ توہین اور گستاخی کی آخری حد سے بھی آگے کی چیز ہیں۔ کیا ان کا جواب ممکن ہے سوائے اس کے کہ مرتکبین کو جہنم واصل کردیا جائے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو رسالت مآب ؐ کی ذات ہمارے لیے زندگی کی ہدایت انسانیت کا نمونہ، اقامت دین کی جدوجہد کا درس ہمدردی، تسکین اور باطن قوتوں سے لڑنے کی طاقت ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے آخری رسول ؐ کی محبت نہیں تو دین نہیں ایمان نہیں تو یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہے حقیقت ہے۔ مغرب اس حقیقت سے آگاہ ہے۔ بہادرآباد کراچی کی عالمگیر مسجد کے خطیب و امام حضرت مفتی سعید احمد ’’مسلمانوں اور رسالت مآب ؐ کے تعلق‘‘ کے ضمن میں ایک نادر واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے ایمان اور نور ہدایت کا تعلق اللہ کے رسول ؐ سے جڑا ہوا ہے۔ ایک اللہ والے نے ایک بھری محفل میں یہ نکتہ بیان کیا تو بعضوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ اللہ والے نے فرمایا ’’کہو تو میں یہ تعلق کاٹ دوں‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’کاٹ دو‘‘ شام تک وہ لوگ مرتد ہوچکے تھے‘‘۔