نومنتخب وزیر اعظم عمران خان کو قومی سلامتی کے حوالے سے اہم ترین بریفنگ دی جاچکی ہے‘ جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے تک وہ اپنے پانچ وزراء کے ساتھ رہے جہاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی اور وزیر اعظم بریفنگ بھی دی گئی دو اہم ترین ایشوز ہیں پہلا گرے لسٹ سے متعلق ہے اور دوسرا ملکی معیشت ہے‘ دونوں کا قومی سلامتی سے گہرا تعلق ہے ہمیں دیگر مسائل کے علاوہ گرے لسٹ کے ایشو نے گھیر رکھا ہے‘ عالمی برادری نے کچھ سوال ہمارے سامنے رکھے ہوئے جن کا ہم جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں انہی سوالوں کے جواب کے لیے ہماری تیاریوں کا جائزہ لینے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا ایک وفد پچھلے دنوں اسلام آباد پہنچا اور یہاں وزیر خزانہ اسد عمر کے علاوہ دیگر متعلقہ اراکین سے ملاقات کی۔ وفد یہ جاننا چاہتا تھا پاکستان کی طرف سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کس حد تک اطمینان بخش ہیں۔ پاکستان نے اپنا موقف واضح کیا وفد کے خیال میں ابھی پاکستان کو مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ چند ماہ پہلے ایف۔ اے۔ ٹی۔ ایف نے اپنے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا، جس کے تحت معینہ مدت تک شکایات دور کرنے کی مہلت دی گئی اور کہا گیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک کو بلیک لسٹ کردیا جائے گا سینیٹر شیری رحمان نے سینیٹ میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں دریافت کیا کہ وفد کی آمد اور گرے لسٹ کے حوالے سے معلومات دی جائیں اور ایوان کو اعتماد لیا جائے۔ نوٹس کے جواب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ وفد کا یہ دورہ معمول کا تھا کہ اگر پاکستان گرے لسٹ میں شامل نہ بھی ہوتا تو بھی ایسے دورے ہونا تھے کہ ایف، اے، ٹی، ایف کا مینڈیٹ یہی ہے پاکستان پہلے بھی دو مرتبہ بلیک لسٹ میں شامل ہوا اور پھر نکل آیا، اب ہمارے پاس پندرہ ماہ کا وقت ہے، ہم اس عرصے میں ٹھوس اقدامات کے ذریعے ادارے کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس گرے لسٹ سے نکل آئیں گے یہ وزیر خزانہ کی بات تھی جو انہوں نے سینیٹ میں کی‘ ہمارا تجزیہ ہے کہ حکومت کے پاس بھی انہی پندرہ مہینوں کی مہلت ہے وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ جب پابندیوں کی بات آئی تو دوست ممالک نے بھی ہماری حمایت نہیں کی تھی حکومت نے اس سلسلے میں نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی بنادی ہے جو ایف، اے، ٹی، ایف کے اعتراضات کی روشنی میں ٹھوس اقدامات کے بارے میں سفارشات دے گی۔
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہاں سے دہشت گردوں کی مبینہ طور پر مالی مدد ہوتی ہے بلاشبہ یہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا ہے اچھا ہوا کہ کمیٹی بنادی گئی ہے سوال یہ بھی ہے کہ امریکا اور بھارت جیسے ممالک مسلسل پاکستان پر ہی دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کا الزام لگاتے ہوئے یہ سب بھول جاتے ہیں کہ پاکستان تو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کا کردار ادا کررہا ہے اور خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے یہی وہ صورت حال ہے جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہمیں بیرونی محاذ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے گزشتہ دنوں مائیک پومپیو نے وزیراعظم عمران خان سے فون پر بات کی تھی، اِس فون کال کا بنیادی مقصد تو نئے وزیراعظم کو مبارک باد دینا تھا، لیکن کال کے بعد امریکا کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری کی گئی اُس میں کہا گیا تھا کہ وزیر خارجہ نے دورانِ گفتگو اُن دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کا مسئلہ اٹھایا، جو پاکستان سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ایسا کوئی معاملہ زیر بحث ہی نہیں آیا، تاہم امریکا اپنے اعلان پر قائم رہا اور پاکستان کا دفتر خارجہ اس کی تردیدیں کرتا رہا۔کالم کی اشاعت وزیراعظم کی مائیک پومپیو سے ملاقات ہوچکی ہوگی اِس وقت پاکستان کی سرزمین پر کسی دہشت گرد کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور اگر امریکا کو کسی ایسے ٹھکانے کا علم ہے تو وہ اُس کی نشاندہی کرے، پاکستان وہاں بھی کارروائی کرے گا تاہم صدر ٹرمپ نے سالِ رواں کے آغاز میں اپنے خطاب میں افغانستان کے متعلق جس پالیسی کا اعلان کیا تھا اُس میں سارا زور اِس بات پر تھا کہ افغان مسئلہ طاقت کے ذریعے حل کیا جائے گا، انہوں نے اِس سلسلے میں پاکستان کے کردار کا بھی تذکرہ کیا اور بعد میں ایسے اقدامات بھی کیے، جن سے مترشح ہوتا تھا کہ وہ پاکستان کی کارروائیوں سے مطمئن نہیں اور ’’ڈو مور‘‘ کے خواہش مند ہیں، پاکستان نے بھی جواب میں واضح کر دیا تھا کہ اس نے اپنی قوت اور بساط سے بڑھ کر کارروائیاں کر دی ہیں اب مزید کی کوئی گنجائش ہے نہ ضرورت، لیکن اِس کے باوجود امریکی حکام وقتاً فوقتاً مزید کارروائیوں کا مطالبہ کرتے رہے اب دیکھنا ہو گا کہ اسلام آباد کے دورے کے دوران امریکا پاکستان سے کیا توقعات رکھتا اور اِس مسئلے پر کیا موقف اختیار کرتا ہے۔
اِس وقت امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں وہ گرم جوشی نہیں ہے وہ زمانہ لد گیا جب امریکی صدور اور حکومتیں خطے میں پاکستان اور بھارت کو برابر کی قوتیں تصور کیا کرتی تھیں اور دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے پاکستان کو ترجیح دیتیں یا کم از کم توازن برقرار رکھتیں امریکا جو مطالبات کر رہا ہے اس کا جواب منطق کے ساتھ دیا جا سکتا ہے۔ امریکا کو بتایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی قوم اِس سلسلے میں کِس طرح سوچتی ہے اور پارلیمنٹ اِس ضمن میں کیا فیصلہ کر چکی ہے ایک بار پھر امریکا پر واضح کر دینا چاہیے کہ افغانستان میں اسے جن مشکلات کا سامنا ہے اِس میں اُس کا اپنا حصہ بہت زیادہ ہے، پاکستان کو اِس ضمن میں موردِ الزام نہ ٹھیرایا جائے، لگتا ہے کہ امریکا اپنے موقف میں کوئی نرمی نہیں کرے گا، پاکستان کی خارجہ پالیسی شدید آزمائش سے دوچار ہے دیکھیں نئی حکومت اور نئے وزیر خارجہ اِس ضمن میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔