میاں منیر احمد
آج شہداء کو یاد کرنے کا دن ہے‘ اپنے احتساب کا دن ہے‘ دشمن کو پہچاننے کا دن ہے‘ پاک فوج کے جری جوانوں‘ نشان حیدر پانے والوں کا دن ہے‘ ڈھاکا کی حافظت کرنے والے البدر اور الشمس کے جوانوں کا دن ہے‘ 1965ء ستمبر کی چھ تاریخ کو محاذ جنگ پر کھڑے جوانوں اور سترہ دن کی جنگ کے شہداء اور غازیوں‘ ایم ایم عالم کی بہادری اور جرات کو سلام پیش کرنے کا دن ہے‘ ہمیں آج سب شہداء یاد ہیں‘ عزیز بھٹی سے لے کر راشد منہاس تک‘ لالک جان سے لے کر کرنل شیر خان تک سب یاد ہیں۔ البدر کے شہید جنہیں تاریخ نے یاد رکھا اور وہ شہید جنہیں نشان حیدر ملا‘ جنہیں ہلال امتیاز اور جنہیں ستارہ امتیاز‘ اور وہ جنہوں نے لالک جان جیسے بہادر پیدا کیے‘ کرنل شیر خان کو دودھ پلایا‘ ایسی سب مائوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے‘ ہاں ہمیں یاد ہے کہ جب بری، بحری اور فضائی فوج نے دشمن کو شکست دی‘ تب قوم ایک تھی‘ یکسو تھی‘ فوج کو نظر آنے والے دشمن سے واسطہ تھا‘ آج حالات بدلے ہوئے ہیں‘ دشمن بھی سامنے نہیں ہے‘ شاید ہماری آستینوں میں کہیں چھپا بیٹھا ہے اسے تلاش کرکے مارنے کے عہد کا دن بھی ہے ایک ایسا ہی دشمن کلبھوشن بھی ہے‘ اسے جس جری جوان نے پکڑا آج اس کی کہانی ایک بار پھر دہرانے کا دن ہے۔
بظاہر خاموش رہنے والا یہ ملنسار سا پانچویں کلاس کا بچہ اس قدر غضبناک بھی ہوسکتا ہے کہ جو دوسروں کی لڑائی میں کود کر اپنی جان کا بھی خطرہ مول لیتا ہے اس کی رگوں میں بلوچوں کے لاشاری قبیلے کا گرم اور غیرت مند خون تھا، مستونگ کیمٹی میں اس کا خمیر گندھا ہوا تھا اور اس پر یہ کہ وہ ایسے باپ کی اولاد تھا جس پر پاک فوج بھی فخر کرتی تھی۔ خون میں خاندانی غیرت و خدمت، شجاعت اور عسکریت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اسی لیے تو ضبط کردار کا مالک بھی تھا اور بچپن میں دوسروں سے منفرد بھی تھا، ظالم کا ہاتھ روکنے میں وہ حق کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تھا، نہ شرارتوں میں کسی سے لڑتا، نہ کسی کو تنگ کرتا، احساس ذمے داری کوٹ کوٹ بھری تھی اس میں۔ بس ایک ہی خواب دیکھتا تھا کہ وہ کب بڑا ہو اور فوج میں چلا جائے۔ فوج اس کا جنون تھا، شہادت اس کی تمنا تھی پی ٹی وی پر فوج کی ڈراما سیریل ’’الفا، براو، چارلی‘‘ وہ بڑے شوق اور انہماک سے دیکھتا تھا الفا براوء چارلی کا کیپٹن گل شیر جس قسط میں شہید ہوا وہ بھی جولائی اگست کے دن تھے اور اٹھارہ سال بعد جب اسامہ لاشاری رتبہ شہادت پر فائز ہوا اس دن جولائی 2016 کی 23 تاریخ تھی، اس کی دعا ربّ الکریم نے اسی دن قبول کرلی تھی بچپن سے وہ فوج کے عشق میں ایسا گرفتار ہوا کہ وہ جیتے جی فوج کی حرمت اور اپنے ملک کی حفا ظت میں لگا رہا۔ اس نے اپنی نیندیں وطن پر قربان کردی تھیں اور روز وشب یہی سوچتا اور کہتا تھا کہ بلوچستان کو اسی صورت دشمنوں سے بچایا جاسکتا ہے جب ہم جاگتے رہیں، اس کو سونے سے زیادہ جاگتے رہنے سے محبت تھی اور یہ دیوانگی اس کو فوج نے دی، خاص طور پر جب فوج میں کمیشنڈ افسر کے لیے منتخب نہ ہوسکا تو ایم بی اے کرنے کے بعد اس نے آئی ایس آئی کو جوائن کرکے اپنے خوابوں کو تعبیر دی‘‘۔
پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر اسامہ لاشاری نے ماسٹرز کے بعد بھی فوج میںسلیکٹ ہوگیا۔ وہ عام نوجوانوں اور افسروں سے بہت مختلف تھا بلوچستان میں جب بھارتی جاسوسوں نے اپنے پاوں جمانے شروع کیے تو اسامہ لاشاری کا فرض پہلے سے بھی بڑھ گیا۔ اسے انتہائی اہم اسائمنٹ دیے گئے اور اس نے بڑی کامیابی سے آپریشن کرائے۔ بھارتی فوج کے افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری میں اہم ترین کردار ادا کرنے کے بعد اس کا قابل ترین افسروں میں شمار ہونے لگا اور پھر جب کلبھوشن یادیونے منہ کھولا اور اسے انٹیلی جنس ٹپس ملیں تو ایک روز اس نے ایک اہم ہائی پروفائل ٹارگٹ کی ریکی شروع کردی۔ اسے خبر مل چکی تھی اس ٹارگٹ نے بلوچستان کو اپنی ہائی وے بنا رکھا ہے اور اس پر ثبوتوں کے ساتھ ہاتھ ڈالنا کاردشوار ہے، دشمنوں نے کئی طرح سے خود کو کیموفلاج کیا ہوا تھا لیکن اسامہ لاشاری اس تک پہنچ گیا تھا۔ ٹارگٹ نے جب وہاں سے بھاگنا چاہا تو اسامہ لاشاری بھی گاڑی لیکر اس کے پیچھے لپکا اور ہیڈ کوارٹر کو میسج کردیا کہ وہ کلبھوشن یادیو کے ایک اور بڑے مہرے کو گرفتار کرنے والا ہے۔ لیکن دشمن اسامہ کی توقعات سے زیادہ پھرتیلا نکلا اور اس نے گاڑی کو اس تیزی سے سڑکوں پر بھگانا شروع کردیا کہ اسامہ لاشاری نے بھی اپنی گاڑی کو پر لگادیے، ٹائر سڑکوں پر چڑچڑاتے ہوئے شعلے اگلنے لگے، اسامہ لاشاری کی نگاہیں اس وقت اسٹیرنگ پر تھیں، وہ اکیلا ہی تھا، اس کی نگاہیں سڑک سے زیادہ دشمن کی گاڑی پرمرکوز تھیں، ساتھ ساتھ وہ رپورٹ بھی کیے جارہا تھا لیکن شو مئی قسمت سے اچانک کیا ہوا کہ اس کی گاڑی ہوا میں اچھلی۔ یہ اس قدر زور دار جھٹکا تھا کہ اسامہ لاشاری ڈرائیونگ سے اچھل کر سڑک پر آگرا اور اس کا سر زور سے پتھر پر لگا۔ فرشتہ اجل نے فوراً اپنے شہید کو بازووں میں اٹھا لیا۔ سڑک پر اس کی گاڑی قلابازیاں کھاتی دور تک چلی گئی اور وہ خود اللہ کے حضور پیش ہوگیا۔ اس کا مشن پھر بھی پورا ہوگیا تھا کیوںکہ اس شہید کی دی معلومات پر غیر ملکی جاسوسوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا اس شہید کو اپنی منزل مل گئی تھی۔ اس کا نکاح ہوچکا تھا لیکن رخصتی تین ماہ بعد ہونے والی تھی۔ اس لیے کہ وہ انتہائی اہم مشن پر لگا ہوا تھا۔ وہ اپنے آپریشن کو چھوڑ کر شادی کے لیے فرصت کی چھٹی نہیں مانگ سکتا تھا۔ حنظلہ لاشاری اپنے بھائی کے بہت قریب تھے انہیں بلوچستان کے حالات دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا، کہا کرتے تھے کہ بلوچستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، اس کو بچانے کے لیے سخت ترین محنت کی ضرورت ہے اور جب تک میں زندہ ہوں، میں اپنی سرزمین کو بچانے کے لیے پوری کوشش کروں گا۔ آخر بھائی نے اپنا وعدہ پورا کیا، اس کی شہادت ہمارا فخر ہے الحمد للہ۔
اسامہ لاشاری کا تعلق مستونگ بلوچستان سے تھا۔ وہ 9اکتوبر 1987 کو پیدا ہوئے والد فوج میں تھے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم و تربیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہوئی بلوچستان سے گرفتار کیے جانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام تو پاکستان کا بچہ بچہ جان چکا ہے، لیکن شاید ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کو گرفتار کرانے میں آئی ایس آئی کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسامہ لاشاری کا اہم ترین کردار ہے جس نے اپنا مشن پورا کرنے کے لیے کلبھوشن یادیو سے حاصل کی جانے والی معلومات کے بعد دوسرے دشمن عناصر اور جاسوسوں کا پیچھا شروع کردیا تھا اور ایک ایسے ہی واقعے میں وہ شہید ہوگئے تھے۔ اسامہ لاشاری پاکستان کے ان قابل فخر سپوتوں کا سالار ہے جو اپنے وطن کی سرزمین کی حفاظت میں خوشی سے جان قربان کردیتے ہیں۔ اس کی زندگی اور عزم ہر پاکستانی نوجوان کے لیے درس اک درجہ رکھتا ہے۔