’’عزت دو عزت لو‘‘

325

پاک امریکا تعلقات کا ماضی کا فارمولہ ’’اُجرت دو خدمت لو‘‘ تھا جب امریکی پاکستان کی امداد بڑھاتے اور پاکستان تھینک یو امریکا کا کتبہ اونٹوں کے گلے میں لٹکا کر شکرگزاری کا مظاہرہ کرتا۔ دونوں کے تعلقات پر دہائیوں تک اسی اصول اور فارمولے کے سائے منڈلاتے رہے۔ وقت کچھ ایسا بدل گیا کہ اب نہ امریکا پاکستان کو اجرت دینے پر تیار ہے اور نہ پاکستان اُجرت لینے اور اس کے بدلے ہر حکم بجا لانے پر آمادہ ہے۔ قوموں کی زندگی میں شاخِ شجر کی طرح لچک اور جھکاؤ کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ حد پار ہوجائے تو شاخ ٹوٹ جاتی ہے۔ شاید امریکی دباؤ اور پاکستان کی لچک اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جہاں اسے کچھ تلخ فیصلے کرنا تھے اور پاکستان بھی وہ فیصلے کرچکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد دورہ کرنے والے دوسرے غیر ملکی نمائندے ہیں۔ اس سے پہلے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کا دورہ کرچکے تھے۔ مائیک پومپیو کا دورۂ پاکستان کسی خوش گوار فضاء میں نہیں ہوا بلکہ یہ ایک ایسا موقع تھا جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دراڑیں گہری اور نمایاں ہوتی جا رہی تھیں جس کا ایک ثبوت پاکستان کی واجب الادا رقم روکنا اور وزیر اعظم عمران خان اور مائیک پومپیو کی ٹیلی فونک گفتگو کو اپنے معانی اور مفاہیم پہنانا اور ڈومور کی گردان تھا۔ مائیک پومپیو نئے پاکستان میں تانک جھانک کرنے اور عمران خان کو امریکی مطالبات اور ترجیحات سے آگاہ کرنے آئے تھے۔ وہ پاکستانی حکومت کا موڈ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ یہ اندازہ بھی کرنا چاہتے تھے امریکی خواہشات کے علی الرغم پاکستان میں آنے والی تبدیلی کس رخ جا رہی ہے؟۔ مائیک پومپیو کو شاید حالات کا اچھی طرح انداز ہ ہوگیا کہ پاکستان اب بدلا ہوا ہے۔ ڈومور کی مسلسل گردان نے پاکستانیوں کو حالات سے بے پروا کیا ہے۔
مائیک پومپیو کا استقبال نورخان ائر بیس پروزارت خارجہ کے ایک افسر نے کیا۔ پاک امریکا تعلقات کی روایت کے مطابق یہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو موجود ہونا چاہیے تھا۔ شاہ محمود قریشی کی عدم موجودگی نے مائیک پومپیو کو کچھ نہ کہتے ہوئے بہت کچھ سمجھا دیا ہوگا۔ ان کی پہلی ملاقات دو وفود کی سطح پر ہوئی جہاں ایک طرف مائیک پومپیو اور ان کے ساتھی تھے تو سامنے شاہ محمود قریشی اور ان کے ساتھی۔ ان کی ایک اہم ملاقات وزیر اعظم عمران خان سے ہوئی اور اس موقع پر وزرات خارجہ کے اہلکار اور فوجی قیادت موجود تھی۔ مہمان اپنی نشستوں پر براجمان تھے اور وزیر اعظم عمران خان کمال بے نیازی سے ہال میں داخل ہوئے اور مائیک پومپیو سے ہاتھ ملا کر بیٹھنے لگے تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں امریکی جنرل جوزف ڈنفرنڈ کی طرف متوجہ کیا اور یوں انہوں نے وفد کے دوسرے ارکان سے بھی مصافحہ کیا۔ عمران خان کرس�ئ صدارت پر اپنی سناتے اور ان کی سنتے رہے۔ یہ بھی ایک بدلی ہوئی فضاء کا اشارہ تھا۔ ماضی میں امریکی خود تو امریکی ریاست کے نمائندوں کے طور پر پاکستان آتے اور امریکی ریاست کا پیغام دے جاتے مگر پاکستان میں وہ فوجی اور سویلین حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کرتے اور اس الگ الگ کانا پھونسی سے بہت سے ابہام پیدا ہوتے۔ سویلین حکام سرگوشیوں میں اپنی بے بسی کا اظہار بھی کرجاتے اور جواباً امریکی ان کے کان میں ’’قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کا منتر پھونک جاتے۔ اسی ہلہ شیری کے باعث قدم بڑھانے والے اس سوز وساز کے ساتھ قدم بڑھاتے چلے جاتے کہ کسی بند گلی اور جادو نگری میں پہنچ جاتے۔ مشترکہ ملاقات نے اس روایت کو بدل دیا۔ اب ریاست امریکا نے جو کچھ کہا ریاست پاکستان سے کہا اور جواب میں ریاست پاکستان نے اپنا موقف بیان کیا۔ یہ ماضی کے قطعی برعکس عمران خان کا موقف تھا نہ جنرل باجوہ کا۔ مائیک پومپیو کے ساتھ بھی ایک جنرل جوزف ڈنفرنڈ کی موجودگی معنی خیز تھی تو مشترکہ ملاقات کی محفل میں جنرل باجوہ کی موجودگی میں بھی گہری معنویت تھی۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان کوئی سیاسی جھگڑ ا نہیں بلکہ اس کی بنیادی جہت فوجی ہے۔ امریکی فوج سترہ برس سے افغانستان میں مار کھا رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہ یہ مار پاکستان کی منصوبہ بندی کی وجہ سے کھانے پر مجبور ہیں جبکہ خود پاکستان جو فوجی تکالیف اُٹھا رہا ہے اس کو یقین ہے کہ یہ افغانستان میں امریکی فوج کی پیدا کردہ ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے تو یہ دعویٰ کیا ملاقات میں ’’ڈومور‘‘ نہیں ہوا۔ اب اس بات کی قطعی اہمیت نہیں کہ امریکا ڈومور کہتا یا نہیں اور اگر کہتا ہے تو الفاظ واصطلاحات کیا ہوتے ہیں؟۔ اب یہ امریکا کی فطرت ثانیہ ہے اور جواب میں پاکستان بھی ایک لکیر کھینچ چکا ہے۔ اس لیے یہ راگ جا ر ی رہے گا مگر امریکا کے ساتھ برابری پیدا کرنے اور امریکیوں کی بگڑی ہوئی عادتیں ٹھیک کرنے کا جو عمل شروع ہوا ہے یہ اسی تسلسل اور انداز میں جا ری رہنا چاہیے۔
پاک امریکا تعلقات میں جو خرابی پیدا ہوئی ہے اس میں راتوں رات بہتری کی قطعی کوئی امید نہیں۔ افغانستان میں اتفاق ہو بھی جاتا ہے تو پاک چین اقتصادی تعلقات جن پر حال ہی امریکی تشویش ظاہر کرچکے ہیں ایک اور مسئلہ ہوں گے یوں امریکی فرمائشیں اور خواہشیں ہزاروں اور رنگا رنگ ہیں مگر پاکستان کے لیے سارے ارمانوں کا پورا کرنا ممکن نہیں۔ پاک چین تعلقات اور پاک بھارت تعلقات امریکا کے لیے ایک دلدل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور تعلق بڑھانے اور تجدید تعلقات کی بہترین پچ افغانستان ہے۔ امریکا افغانستان میں امن کو چین اور بھارت کے ساتھ جوڑنے کے بجائے افغانستان کو افغانستان کی عینک سے دیکھے تو یہ تعاون کی کلید ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے افغانستان کا رستا ہوا ناسور دردِسر ہے۔ امریکا اور پاکستان کی فوجیں اپنے اپنے انداز سے افغانستان کی جنگ کی قیمت چکار ہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے لیے یہ محض فوجی اثرات ہی نہیں بلکہ افغانستان میں جنگ کی طوالت امریکا کو ایک کمزور ہوتی ہوئی عالمی طاقت بنا رہا ہے اور اس سے امریکا کا عالمی دبدبہ کم ہورہا ہے جبکہ یہ جنگ پاکستان کو سیاسی، سماجی اور اقتصادی حوالوں سے نقصان پہنچا رہی ہے۔