مہنگی کفایت شعاری اور پروٹوکول

214

عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی قوم کو سادگی، کفایت شعاری اور بچت کا درس دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ نہ خود پروٹوکول لیں گے نہ کسی دوسرے کو لینے دیں گے۔ سادگی بھی انہوں نے اپنی ذات سے شروع کی ہے بلکہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی انہوں نے سادگی اختیار کرلی تھی اور سیاست کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی انہوں نے سادہ شلوار قمیص کو اپنا شعار بنالیا تھا۔ واسکٹ پہننا تو خان صاحب نے اب شروع کی ہے ورنہ اس سے پہلے وہ صرف شلوار قمیص ہی میں ملبوس نظر آتے تھے اور بعض اوقات ان کے لباس پر شکنیں صاف نظر آتی تھیں۔ یہ تو ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنے لاپروا شوہر کو ڈھنگ کا لباس پہننا سکھا دیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ مغربی لباس کے دلدادہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب عوامی لیڈر کی حیثیت سے شلوار قمیص کو اپنایا تو ایلیٹ کلاس میں یہ کلچر تیزی سے پھیلا تھا پھر ان کے بعد جنرل ضیا الحق آئے تو انہوں نے بھی اس قومی لباس کی سرپرستی کی۔ وہ سرکاری تقریبات میں شیروانی کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ اسی لباس میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی خطاب کیا تھا اور عالمی برادری میں پاکستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کی تھی۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ابتدا میں برسراقتدار آنے کے بعد قومی لباس پہنا کرتے تھے لیکن 2013ء میں حکومت سنبھالی تو مغربی لباس ان کی آنکھوں کو بھا گیا اور وہ سوٹ اور نکٹائی میں ملبوس نظر آنے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی ان کے وزیروں نے بھی نئے سوٹ سلوائے اور کالے انگریز بن گئے، حد یہ کہ احسن اقبال بھی خود کو سوٹ اور نکٹائی میں جکڑ کر مسکرانے لگے۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کئی مرتبہ خطاب کیا لیکن ہمیشہ مغربی لباس اور مغربی زبان میں۔ البتہ عمران خان ایسے کسی کمپلیکس کا شکار نہیں ہیں۔ ستمبر میں جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس شروع ہورہا ہے اگر عمران خان نے وہاں خود جانے اور خطاب کرنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں یقین ہے کہ وہ وہاں قومی لباس میں جانے کو ترجیح دیں گے اور اگر انہوں نے مزید ہمت دکھائی تو وہ عالمی اجلاس سے اپنی قومی زبان اردو میں بھی خطاب کرسکتے ہیں کہ پوری دُنیا سے آنے والے سربراہانِ حکومت بیشتر اپنی قومی زبان ہی میں اجلاس سے خطاب کرتے ہیں اور انگریزی سمیت کئی زبانوں میں بیک وقت اس کا ترجمہ نشر ہوتا رہتا ہے۔
لیجیے صاحب بات سادگی کی ہورہی تھی کہ کہاں سے کہاں نکل گئی۔ سادگی دراصل ایک ایسا کرشمہ ہے جس سے بہت سے کرشمے ظہور پزیر ہوتے ہیں اور آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ عمران خان کی سادگی سے بھی پوری قوم بہت سی توقعات لگائے بیٹھی ہے۔ آئیے اب خان صاحب کی کفایت شعاری کا ذکر کرتے ہیں۔ خان صاحب کو ملک کی نہایت خراب معاشی صورت حال نڈھال کیے دے رہی ہے، ان کے پیش رو وطن عزیز پر اتنا قرضہ چڑھا گئے ہیں کہ اب اس کا سانس لینا بھی محال ہورہا ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ بچت اور کفایت شعاری سے وہ قرضوں کے اس بوجھ میں جتنی کمی لاسکیں اس میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، اسی جذبے کے تحت انہوں نے وسیع و عریض وزیراعظم ہاؤس میں رہنے اور ملازمین کی فوج ظفر موج رکھنے سے انکار کیا ہے کہ اس سے اچھی خاصی بچت ہوگی اور کفایت شعاری کا کلچر عام ہوگا۔ وہ وزیراعظم بننے کے بعد رہنا تو اپنے ذاتی مکان بنی گالا ہی میں چاہتے تھے تا کہ اپنے گھر کا کھائیں پئیں اور قومی خزانے پر ذرا سا بوجھ نہ بنیں لیکن پھر بنی گالا سے وزیراعظم آفس آنے جانے میں سیکورٹی اور پروٹوکول کا مسئلہ حائل ہوگیا۔ خان صاحب پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ نہ خود پروٹوکول لیں گے نہ دوسروں کو لینے دیں گے۔ چناں چہ انہوں نے اس جھنجھٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم آفس کے قریب ہی رہائش رکھنے کا ارادہ کیا۔ پہلے کہا گیا کہ وہ منسٹرز کالونی کے کسی اپارٹمنٹ میں رہنا پسند کریں گے لیکن شاید سیکورٹی کلیئرنس نہ ملنے پر یہ پروگرام تبدیل ہوگیا پھر ان کی رہائش کے لیے پنجاب ہاؤس پر نظر انتخاب پڑی، کہا گیا کہ وزیراعظم پنجاب ہاؤس میں رہائش اختیار کریں گے، ابھی یہ پروگرام فائنل نہیں ہو پایا تھا کہ کسی نے خان صاحب کو مشورہ دیا کہ پنجاب ہاؤس تو بہت بڑا ہے آپ دوجی ہیں ایک آپ، ایک آپ کی اہلیہ۔ بیٹے آپ کے لندن میں رہتے ہیں، بہنیں آپ سے ملنے نہیں آتیں، آپ اتنے اکل کھرے ہیں کہ کوئی مہمان بھی آپ کے قریب نہیں پھٹکتا، ایسے میں وسیع و عریض پنجاب ہاؤس کا سناٹا آپ کو کاٹنے کو دوڑے گا اور آپ چند روز میں پاگل ہوجائیں گے۔ حالاں کہ آپ کو پاگل کرنے کے لیے آپ کے مشیر ہی کافی ہیں۔ چناں چہ یہ آئیڈیا بھی ترک کردیا گیا۔ پھر خبر آئی کہ خان صاحب کی رہائش کے لیے وزیراعظم ہاؤس سے متصل ملٹری سیکرٹری کی اقامت گاہ کو پسند کرلیا گیا ہے۔ دو ڈھائی کنال پر محیط اس اقامت گاہ کو نک سک سے درست کیا جارہا ہے۔ کفایت شعاری کے پیش نظر نیا فرنیچر نہیں خریدا گیا بلکہ بنی گالا سے پرانا فرنیچر یہاں منتقل کردیا گیا ہے۔ لوگ پوچھ رہے تھے کہ کیا وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ملٹری سیکرٹری کو کون سا سرونٹ کوارٹر الاٹ کیا جارہا ہے؟ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ شاید یہ آئیڈیا بھی ڈراپ کردیا گیا کیوں کہ آخری خبریں آنے تک خان صاحب اپنی نجی رہائش گاہ بنی گالا ہی میں مقیم ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر بچت اور کفایت شعاری اور کیا ہوسکتی ہے! لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے الزام لگایا ہے کہ وزیراعظم کی یہ کفایت شعاری قوم کو بڑی مہنگی پڑ رہی ہے کیوں کہ وہ دن میں دو مرتبہ بنی گالا سے وزیراعظم آفس ہیلی کاپٹر کے ذریعے آتے جاتے ہیں اور ہر پھیرا دو لاکھ میں پڑتا ہے۔ اس طرح روزانہ چار لاکھ روپے خان صاحب کی کفایت شعاری کی نذر ہورہے ہیں۔ اگرچہ وزیر اطلاعات نے گوگل کے ذریعے بڑا سستا حساب لگایا ہے لیکن ایوی ایشن کے ماہرین نے خورشید شاہ کے الزام کی تصدیق کی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر استعمال کرنا وزیراعظم کا حق ہے اور انہیں کرنا چاہیے، البتہ وہ لنچ کرنے کے لیے بنی گالا جانے کے بجائے لنچ باکس ساتھ لے آیا کریں تو ایک پھیرے کی بچت ہوسکتی ہے۔ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد ایسا ہی کرتے تھے وہ لنچ کے لیے گھر جانے کے بجائے اپنے آفس میں لنچ کرتے اور کچھ دیر آرام کرسی پر آنکھیں موند کر قیلولہ بھی فرمالیا کرتے تھے۔ خان صاحب بھی یہ ترکیب آزما سکتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے خان صاحب بچت اور کفایت شعاری کے لیے ساری ترکیبیں آزما رہے ہیں، وہ لنچ بکس کی ترکیب بھی آزما سکتے ہیں۔ انہوں نے ابتدا ہی میں پروٹوکول سے بیزاری کا اظہار کردیا تھا اور اب تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ انہوں نے گارڈ آف آنر کے سوا کوئی اور پروٹوکول لیا ہو۔ البتہ ان کے وزیروں کا معاملہ مختلف ہے، خاص طور پر شیخ رشید تو وزارت ملتے ہی آپے سے باہر ہوگئے ہیں۔ اپنی وزارت کے افسران کو بے نقط سنا رہے ہیں، اپنے حلقے میں جہاں وہ موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر انتخابی مہم چلایا کرتے تھے اب وزیر بننے کے بعد انہیں اپنے پروٹوکول میں حائل موٹر سائیکلیں بُری لگنے لگی ہیں اور وہ دکانداروں کو دھمکیاں دینے پر اُتر آئے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب نواز شریف کی پہلی حکومت میں شیخ رشید وزیر اطلاعات بنے تھے تو صحافیوں کے ساتھ ان کا رویہ جارحانہ ہوگیا تھا جس پر برادرم سعود ساحر نے کہا تھا کہ شیخ رشید کی گردن میں سرایا آگیا ہے، ہم اُسے نکالنا جانتے ہیں۔ اب پھر وزیر بننے کے بعد ان کی گردن میں سریا سرسرا رہا ہے اور ان کے حلقے کے دکاندار یہ سریا نکالنا چاہتے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب کے غریب وزیراعلیٰ کو بھی پروٹوکول کا نشہ چڑھ گیا ہے اور وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بھی سادہ لباس ترک کرکے سوٹ اور نِکٹائی زیب تن کرلی ہے۔ عمران خان اپنے وزیروں کی خبر لیں کہیں ان کی سادگی اور کفایت شعاری اور پروٹوکول نہ لینے کا وژن ان کے وزیروں کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ نہ اُتر جائے۔