گرین لائن منصوبہ عذاب بن گیا

294

گرین لائن منصوبے میں تاخیر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک بھر میں نہ جانے کتنے ہی معاملات ہیں جوانتظامیہ کے رحم وکرم پرادھورے پڑے ہیں۔ جنوری 2016 میں شروع ہونے والا گرین لائن منصوبہ اُسی سال دسمبر میں مکمل ہونا تھاتاہم مختلف تاریخوں سے گزرنے کے بعد رواں برس اپریل میں اسے حتمی طور سندھ حکومت کے حوالے کیا جانا تھا۔ 16ارب سے شروع ہونے والا منصوبہ پہلے 26ارب کا ہوا اور اب خیال ہے کہ 40ارب سے تجاوز کرجائے گا۔منصوبے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔فیز ون میں سرجانی ٹاؤن تا میونسپل پارک کی تعمیر اپریل میں ختم ہونی تھی، جب کہ فروری میں فیز ٹو کے ٹینڈر کی منظور ی کے بعد مارچ میں کام شروع ہونا تھا۔ 25جولائی کے انتخابات میں شکست کے بعد ن لیگ کی طرح اس کا منصوبہ بھی ویران ہوگیا ہے۔ گرومندر سے سرجانی ٹاؤن تک پل پر کام کے آثار نظر نہیں آتے۔ کراچی کے شہری 2سال سے ترقیاتی کام کے نام پر مصیبتیں جھیلتے رہے اور اب اتنی بڑی لاگت کے منصوبے کو یوں بے یار مددگار چھوڑ دیا گیاہے۔ لاہور میں میٹروبس ، اورنج لائن اور دیگرمنصوبوں میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ اس کے برعکس کراچی کا منصوبہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا تھا، اس کے باوجود انہوں نے کراچی کا ایک دورہ کرکے اسے کافی سمجھ لیا۔ انتخابات سے قبل حکومتی ادارے ووٹ لینے کے لیے ترقیاتی کاموں میں سبقت لے جارہے تھے۔ لیکن اس وقت بھی ن لیگ نے انتخابی نعروں میں گرین لائن کا نام لیا نہ عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔ شہباز شریف کراچی آئے اورانتخابی حلقوں میں خطاب کرکے واپس چلے گئے۔ حالاں کہ اگر وہ پل پر کھڑے ہوکر ہاتھ ہی ہلادیتے تو لگتا کہ یہ منصوبہ یوں لاوارث نہیں رہے گا۔ ایک رائے سامنے آئی کہ یہ منصوبہ سی پیک معاہدے کا ایک ذیلی حصہ تھا، جسے شرائط کے تحت مجبورا قبول کیا گیا۔ اسی وجہ سے بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی اسے عجلت میں شروع کردیا گیا ، حالاں کہ اگر ان پیسوں کو سڑکوں اور دیگر امور کی بہتری پر صرف کیا جاتا تو شہر کی حالت یوں ابتر نہ ہوتی۔ منصوبے کی تکمیل پچھلی وفاقی حکومت کی ذمے داری تھی جب کہ بسیں چلانا سندھ حکومت کا ذمہ تھا۔ سندھ حکومت نے 10میٹرو بسیں چلاکر بتادیا کہ گرین لائن سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ صوبائی حکومت میں تو کوئی منصوبے کا خیر خواہ ہے ہی نہیں اور اب تو وفاقی حکومت بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ شہر بھر میں منصوبے کی زد میں آنے والی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔نارتھ کراچی اور سرجانی ٹاؤن میں بس اسٹشنز کے لیے کھودے گئے گہرے گڑھے خطرناک صورت اختیار کرچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ن لیگ سے سیاسی چپقلش اپنی جگہ ، یاد رہناچاہیے کہ یہ ایک عوامی منصوبہ ہے اور کسی بھی قسم کے حادثے اور نقصان کی ذمے دار ی موجودہ حکومت ہی پر عائد ہوگی۔