نیا رشتہ پرانے مطالبات

226

امریکی وزیر خارجہ پاکستان کی نئی حکومت سے تعلقات کے آغاز کے لیے پاکستان کا دورہ کر گئے۔ اس دورے کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ پاک امریکا تعلقات میں تعطل ختم ہوگیا۔ گویا یہ بڑی کامیابی ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کا تعطل ختم ہوگیا ہے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ پاک امریکا تعلقات کیا تھے اور تعطل کیوں ہوا تھا اور یہ تعطل کن شرائط پر ختم ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات پہلے کی طرح بحال ہوگئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلے بھی امریکا جس طرح احکامات دیتا تھا اب بھی اسی طرح احکامات دیے ہیں۔ پہلے بھی امریکا جس طرح دھمکیاں دیتا تھا اب بھی اسی طرح دھمکیاں دی گئی ہیں۔ آنے سے پہلے دھمکی اور آنے کے بعد دو طرفہ تعاون کی باتیں اور جانے کے بعد پھر وہی دھمکی یہی پاک امریکا روایتی تعلقات تھے جو یقینی طور پر مکمل بحالی کی طرف رواں دواں ہیں۔ پاک امریکا تعلقات میں جو خرابی تھی وہ تجارت اور دو طرفہ تعاون کی نہیں تھی۔ وہ خرابی ثقافتی وفود کے تبادلے کی نہیں تھی وہ تو تھی ہی افغانستان میں امریکی مداخلت اور اس کے مخالفین کی جد وجہد روکنے کے لیے پاکستان پر امریکا کی جانب سے عاید کردہ ذمے داریوں کی تھی۔ امریکا نے از خود یا سابق حکمران جنرل پرویز کے دور میں ان کی رضامندی سے پاکستان کو یہ کردار سونپ دیا تھا کہ افغانستان میں امن قائم رکھنا پاکستان کی ذمے داری ہے اور افغانستان میں امریکی یا افغان فوج کو پریشان کرنے والے ہر قسم کے عناصر سے نمٹنا بھی پاکستان کی ذمے داری ہے۔ خواہ وہ طالبان ہوں، حقانی نیٹ ورک ہو یا کوئی بھی گروپ اس کا خاتمہ پاکستان کی ذمے داری ہے اور یہ کہ ان گروپوں کو جو بھی فنڈنگ کرتا ہو اس کو روکنا بھی پاکستان کی ذمے داری ہے۔ تنازعہ یہ تھا کہ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم نے پورے پاکستان سے ایسے تمام نیٹ ورکس اکھاڑ پھینکے ہیں۔ پاکستان نے وزیرستان اور کے پی کے میں شہر کے شہر خالی کراکر لوگوں کو کئی کئی ماہ بے گھر رکھ کر آپریشن کلین اپ کیا ہے اور اب پاکستان میں کسی قسم کے دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے اور کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں پاکستانی حکومتوں سے اپنے عوام کے ساتھ زیادتی ہوگئی لیکن بین الاقوامی دباؤ کے سامنے بے بسی تھی۔ اب جب کہ پاکستان بار بار یہ کہہ چکا کہ پاکستان میں کوئی ٹھکانہ نہیں امریکی اصرار ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو پاکستان نہ صرف محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستان میں ان کے تربیتی مراکز بھی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کا موقف یہ ہے کہ جو کچھ ہے افغانستان میں ہے۔ وہیں سے کارروائیاں ہوتی ہیں اور پاکستان میں بڑی بڑی کارروائیوں بشمول آرمی پبلک اسکول سب کا رابطہ افغانستان سے تھا اور امریکا اس پاکستانی موقف کو تسلیم نہیں کررہاتھا۔ پاک امریکا تعلقات میں جس چیز کو پاکستانی وزیر خارجہ تعطل قرار دے رہے تھے غالباً وہ یہ مطالبہ تھا جو بہت دنوں سے سرکاری سطح پر دہرایا نہیں گیا تھاکہ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے اپنی ذمے داریوں سے بڑھ کر کام کرے۔ سو وہ مطالبہ دہرادیا گیا ہے اسے پاک امریکا تعلقات میں تعطل کا خاتمہ قرار دیا جارہاہے۔ لیکن اگر میدان کی حقیقت جااننا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ افغانستان میں سولہ سترہ برس سے جاری امریکی جنگ لاکھوں، کروڑوں ٹن بارود برساکر ہزاروں افغانوں اور ہزاروں پاکستانیوں کا خون کرکے بھی امریکا افغانستان میں پر سکون نہیں۔ اسے ہر وقت مخالفین کی جانب سے کسی بڑی کارروائی کا خدشہ رہتا ہے اور حال یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے اور جو باقی افغان حکومت کے پاس ہے وہ بھی شام چھ بجے تک، اس کے بعد کوئی ضمانت نہیں کہ کس کی حکومت ہے۔ امریکی اس صورتحال سے پریشان ہیں اور اس سے اس طرح نکلنا چاہتے ہیں کہ امریکیوں اور دنیا پر یہ تاثر دیا جاسکے کہ امریکا افغانستان میں کامیاب رہا ہے اور حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سترہ برس میں بھی وہ صرف ناکامیوں کا سامنا کرتا رہا ہے اب وہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان سے لڑے اور وہ خود ان سے مذاکرات کرے یہ ہے تعلقات کی بحالی۔ لیکن اب جب کہ امریکی پنجوں سے نکلنے کا وقت آگیا ہے اور افغانستان سے اس کی رسوا کن پسپائی یا فرار کا موقع ہے اسے اس کی شرائط پر نہیں نکلنے دیا جائے گا۔ امریکی پاکستان پر تو دباؤ ڈال سکتے ہیں لیکن وہ طالبان کا کیا کریں جو کسی بین الاقوامی قانون کے دائرے میں نہیں آتے۔ ان کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی پابندیوں کا خوف بھی نہیں۔ یہ صرف اﷲ کے خوف اور اپنے ملک کو غیر ملکیوں سے پاک کرنے کے عزم کے ساتھ میدان میں ہیں کسی قسم کے وسائل کے بغیر افغان قوم نے جدید ترین وسائل سے مالا مال امریکا کو شکست دے دی ہے۔ اب اس واضح سیاست کو سمجھنا اور اس سے نکلنا پاکستان کا کام ہے۔ یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ پاکستان کی حکومت نئی ہے اس لیے اسے بہت سی نزاکتوں کا احساس نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ افغان معاملات سے نمٹ رہے ہیں یعنی پاک فوج وہ 9/11 سے لے کر اب تک کے تمام حالات اور واقعات سے اچھی طرح واقف ہے اسے سب معلوم ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ لہٰذا کامیابی اور ناکامی کا سارا بار نئی حکومت پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کا چہرہ سامنے ہے اسے اس کے سربراہ اور ان کی ٹیم کو اس کا خیال رکھنا ہوگا کہ پاکستان کو نقصان ہوتا ہے تو اس میں ان کا حضہ بھی ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پومپیو کے دورے کے حوالے سے کہا تھا کہ اب امریکا سے نیا رشتہ قائم ہوگا۔ لیجیے نیا رشتہ قائم ہوگیا ہے لیکن مطالبات پرانے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی رنگ ڈھنگ اور ڈھب بھی پرانا ہے۔ پاکستان سے پومپیو بھارت پہنچے اور بھارت کے ساتھ وہی فوجی معاہدے اور سودے کیے گئے بڑے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی بھارت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر انداز کردی گئیں۔ یہ ہے نیا رشتہ پرانے مطالبات۔