ہم اتنے بے بس کیوں ہیں

289

اللہ کی آخری کتاب کا موضوع تلاش آدم قرار دیا جائے تو اسوہ رسول ؐ اس تلاش کا نمونہ کمال ہے۔ ایک مسلمان سید المرسلین ؐ سے الگ ہوکر دین کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ عالی مرتبت کی ذات گرامی میں جلال وجمال، فقر وشاہی، زہد وجہاد کی وہ ساری رعنائیاں اور تابانیاں سمٹ آئی ہیں ذوق حسن کو جن کی تلاش ہوسکتی ہے۔ اسلام بحیثیت دین اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا ہے لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی رسالت مآب ؐ کی شخصیت ہے۔ اسلام کی حقیقت کلمہ طیبہ کے پہلے حصے لا الہ الا اللہ کو قرار دی جاسکتی ہے لیکن اسلام کا گنج گراں مایہ محمد الرسول اللہ ہے۔ درود شریف کے ورد کی کثرت کی برکت ہے۔ توحید کا مقصد بجز خدائے محمد ؐ کچھ نہیں۔ ایک مغربی مفکر نے لکھا ہے ’’جب میں مسلمانوں کے درمیان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر سنتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مسلمانوں کے درمیان ہی تشریف فرماں ہیں۔ بے عمل سے بے عمل مسلمان بھی آپ ؐ سے ایسی محبت کرتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے‘‘۔ غالب طاعت وزہد پر جن کی طبیعت کم ہی مائل ہوتی تھی سرکار ؐ کا ذکر کرتے ہیں تو ررنگ ہی بدل جاتاہے۔
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ داں محمد اوست
اللہ کی بارگاہ میں میں نے محمد ؐ کی ثنا کی فقط وہی ایک ذات پاک ہے جو ان کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ ہے۔
سرور کائنات ؐ کا نام دوران شراب نوشی لینے پر اختر شیرانی نے ایک ادیب کو گلاس کھینچ مارا کہ اس حالت میں آقائے جہاں ؐ کا نام لیتے ہو۔ اقبال مرتبہ عشق رسالت مآب ؐ کے جس درجہ پر فائز تھے کلام سے آشکار ہے۔ جب بھی سرکار ؐ کا اسم مبارک زبان پر آتا آنکھیں شبنم ہوجاتیں۔ ایک طالب علم نے ’محمد صاحب‘ کہا اقبال غصہ سے کانپنے لگے چہرہ سرخ ہوگیا کہا: ’’میرے آگے سے اسے دور کردو۔ اس نابکار کو میرے آقا و مولا کا نام لینے کی تمیز نہیں‘‘۔
اسلام کے بارے میں مغرب جس تعصب اور جنونی نفرت میں مبتلا ہے توہین رسول کی صورت میں وہ اس کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہالینڈ کی فریڈم پارٹی کے رہنما ملعون گیرٹ ویلڈر کی طرف سے توہین رسالت پر مبنی کارٹونوں کے مقابلے کا اعلان کیا گیا جس پر پاکستان میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک غم وغصے کی لہر نے جنم لیا اور وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ 29اگست کو تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی نئی حکومت نے اس مسئلے کو او آئی سی اور اقوام متحدہ کے ان اداروں میں اٹھانے کے عزم کا اظہار کیا جہاں جاکر امت مسلمہ کے مسائل گہری نیند سوجاتے ہیں یا پھر گم ہوجاتے ہیں۔ بہر حال آثار واضح تھے کہ اس حوالے سے اکثر مسلم ممالک خصوصاً پاکستان میں ایک بڑی ہنگامہ خیز تحریک انگڑائی لے رہی ہے جس کے پیش نظر ملعون گیرٹ ویلڈر کی طرف سے اس مہم کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا۔ اپنے ایک بیان میں اس نے کہا کہ ’’قتل کی دھمکیوں اور لوگوں کی زندگی کو لاحق خطرات کے سبب گستا خانہ خاکوں کا مقابلہ نہ کرانے کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘ ڈچ رکن کی یہ پسپائی پاکستان سمیت عالم اسلام کے شدید ردعمل کا نتیجہ تھی۔
ہالینڈ 17ملین (ایک کروڑ سترلاکھ) افراد پر مشتمل ایک چھوٹا ملک ہے۔ اس کی آبادی کراچی سے بھی کم ہے لیکن مسلمان ممالک کی کمزوری اور کم مائیگی وجہ ہے کہ وہ بے خوف وخطر دوارب مسلمانوں کی ناموس پر حملہ آور ہے۔ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہالینڈ نے بھی مسلم علاقوں میں کالونیاں بنائی تھیں تب سے صلیبی جنگوں کی نفرت اور تعصب ڈچ لوگوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ تاہم اس اظہار کی بنیادی وجہ مسلم ممالک کی کم ہمتی ہے۔ جیسے ہی مسلم ممالک کی طرف سے کسی طاقت کا اظہار کیا جاتا ہے اور انہیں اپنی جانوں کا خوف لاحق ہوتا ہے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تصور کیجیے اگر مسلمان جسد واحد کی صورت ہوں، تیس لاکھ مجاہدین پر مشتمل ان کی ایک متحدہ فوج ہو، ایک ریا ست کے پرچم تلے یکجا ہوں، جس کی سرحدیں انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی ہوئی ہوں تو کیا کسی طاقتور ترین غیر مسلم ملک کو بھی یہ جرات ہوسکتی ہے، جرات تو درکنار وہ تصور بھی کر سکتا ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب کرے۔
جن دنوں مسلمان ایک ریاست کی صورت دنیا کے حکمران تھے کسی غیر مسلم طاقت کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ توہین رسالت کے ناقابل معافی جرم کا سوچ سکے۔ جب خلافت اپنے کمزور ترین دور سے گزر رہی تھی تب بھی اس کی افواج کی پیش قدمی کا محض اعلان ہی شیطانی اذہان اور زبانوں کو شیطانی عمل سے روکنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے بیس برس قبل فرانس میں والٹیئر کا لکھا ہوا ایک ڈراما اسٹیج کیا گیا جس میں سرکار رسالت مآب ؐ کی توہین کی گئی تھی۔ خلیفہ سلطان عبدالحمید دوم کو اس کی اطلاع ہوئی تو ان کے سفیر نے فرانس کی حکومت کو خبردارکیا جس کے فوراً بعد ڈراما بند کردیا گیا۔ ڈراما کمپنی نے کچھ دن بعد وہی ڈراما بر طانیہ میں اسٹیج کرنے کا پروگرام بنا یا۔ اس وقت عملی صورت حال یہ تھی کہ خلافت عثمانیہ کی رگ جاں برطانیہ کے پنجے میں تھی۔ اس کے باوجود سلطان عبدالحمید نے برطانیہ کے سفیر کو طلب کیا۔ سفیر کو ایک گھنٹے سے زاید انتظار کرانے کے بعد سلطان کمرے میں اس حالت میں داخل ہوئے کہ وہ مکمل فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ سلطان نے سفیر سے ڈرامے سے متعلق بات کی تو سفیر نے کہا کہ ڈرامے کی ٹکٹیں فروخت ہوچکی ہیں اور ڈراما بند کرنا برطانوی عوام کے اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کے مترادف ہوگا۔ خلیفہ نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر برطانوی سفیر سے کہا کہ: ’’ٹھیک ہے میں امت مسلمہ کے نام ایک فتویٰ جاری کررہا ہوں جس میں کہا جائے گا کہ برطانیہ نے ہمارے نبی ؐ کی ناموس پر حملہ کیا ہے اور ان کی توہین کی ہے لہٰذا میں برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں‘‘ اس شب برطانیہ میں وہ ڈراما اسٹیج نہیں کیا گیا اور نہ آئندہ اس کی جرات کی گئی۔
آج اگر مغرب اور کفر کی طاقتیں ہم پر غالب ہیں اور ہم ان کے سامنے مجبور محض ہیں تو اس کی بنیادی طور پر صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ آج وحی کی بنیاد پر قائم ریاست مسلمانوں کے پاس موجود نہیں اور نہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی کے مطابق ان پر حکمرانی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ فریب پر مبنی نظاموں کو چھوڑ کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر ریاست قائم کریں۔ پھر دیکھیے توہین رسالت کی جرات کرنا تو کجا کسی کے لیے ایسا سوچنا بھی ممکن نہ ہوگا۔